ایں ہمہ آوردۂ تُست

280

وزیر اعظم جنابِ عمران خان نے ممتاز صحافیوں، جن میں اکثر اُن کے بہی خواہ رہے ہیں، سے بات کرتے ہوئے کہا: ’’مجھے سو دن کا موقع دو، اُس کے بعد تنقید کرلینا‘‘۔ انہیں سو دن کا موقع دینے پر شاید کسی کو اختلاف نہیں ہوگا، بلکہ اگر وہ دو سو دن کی مہلت مانگیں تو بھی حرج نہیں ہے، کیوں کہ ہر نئے حکمران کو اقتدار سنبھالنے کے بعد معاملات کو سمجھنے کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے اور اُن کے اقدامات کے نتائج سامنے آنے میں مزید وقت لگتا ہے۔ لہٰذا اُن کی خواہش بجا ہے اور اس پر اعتراض کی گنجائش نہیں ہے۔
لیکن جو تنقید سامنے آئی ہے، اُس کا سبب اُن سے بغض وعداوت نہیں ہے، بلکہ یہ اُن کے اپنے اور اُن کے رفقاء کا عطا کردہ تحفہ ہے، غالب نے کہا تھا: ’’مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے‘‘، مفت ہاتھ آئے مال کو ہر کوئی غنیمت سمجھنے میں حق بجانب ہے اور اہلِ صحافت کو بھی اپنا روز مرہ کا کاروبار چلانا ہوتا ہے، گھوڑا چارے سے پیار کرے گا تو بھوکا مرے گا۔
سب سے پہلے آپ نے خود اپنے ابتدائی خطاب میں خلافتِ راشدہ کی مثالیں پیش کیں، ان مثالوں پر پورا اترنا پلِ صراط پر چلنے کے مترادف ہے۔آپ نے سیدنا علیؓ کے عدل کی مثال پیش کی، جبکہ آپ خود اپنے خلاف دائر بہت سے مقدمات میں کئی سال سے پیش نہیں ہو رہے۔ ان مقدس ہستیوں نے ایسا نہیں کیا، بلکہ قاضئ وقت نے سیدنا علی کو عدالت میں کنیت کے ساتھ ابوالحسن کہہ کر اور اُن کے مخالف فریق کو نام سے مخاطَب کیا، تو آپ نے فرمایا کہ یہ آپ نے امتیاز برتا ہے، کیوں کہ اہلِ عرب میں کنیت کے ساتھ خطاب اکرام کے طور پر کیا جاتا تھا، جبکہ عدالت میں کسی ایک فریق کے ساتھ امتیازی برتاؤ عدل کے تقاضوں کے منافی ہے۔ اس لیے میں نے لکھا تھا: ’’یہ آپ کا حوصلہ ہے کہ آپ اپنے لیے خلافتِ راشدہ کو آئیڈیل کے طور پر پیش کر رہے ہیں، ہم آپ کا تقابل آپ کے پیش روؤں سے کریں گے اور زیادہ سے زیادہ ستّر سال پیچھے جائیں گے‘‘۔
اسی طرح وزیرِ اعظم ہاؤس میں ہیلی کاپٹر کی سہولت پرکسی اور نے نہیں آپ نے خود تنقید کی، پھر آپ کو خود اُسے استعمال کرنا پڑا۔ اس کے استعمال پر کوئی اعتراض نہ کرتا، اگر آپ خود اُسے تنقید کی زَد میں نہ لاتے۔ ہمارے نزدیک سڑکیں بلاک کر کے لوگوں کو کرب میں مبتلا کرنے سے ہیلی کاپٹر کا استعمال زیادہ بہتر ہے۔ میں نے گورنر ہاؤس کراچی کی ایک تقریب میں اُس وقت کے گورنرعشرت العباد کی موجودگی میں وزیرِ اعظم شوکت عزیز سے کہا تھا: ’’آپ حضرات لوگوں پر رحم کریں، گھنٹوں لوگوں کو سڑکوں پر انتظار کی زحمت سے بچائیں، پرانے ائرپورٹ کے وی آئی پی لاؤنج کو اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس بنا لیں اور جن لوگوں سے جنابِ وزیر اعظم کو ملاقات کرنی ہے، انہیں وہیں بلا لیا کریں۔ اس طرح لوگ اذیت سے بچ جائیں گے اور آپ کو دعائیں دیں گے، ورنہ آپ سڑک کا روٹ استعمال کرنے کے بجائے ائر پورٹ سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے تشریف لے آئیں تو بھی بہتر رہے گا‘‘، آج یہ گزارش آپ کی خدمت میں بھی پیش کر رہا ہوں۔
مزید یہ کہ میڈیا کو مواقع فراہم کرنے کے لیے آپ کے وزرائے کرام شیخ رشید، فواد چودھری اور فیاض چوہان صاحبان کافی ہیں، ان کا وجود میڈیا کے لیے کافی ہے۔ اِن صاحبان پر خاموش رہنے، کم بولنے، سوچ سمجھ کر بولنے کی پابندی لگانا کالے پانی کی سزا سے کم نہیں ہے۔ نواز شریف کے لبرل وزیرِ اطلاعات پرویز رشید، جو ہم مذہبی لوگوں سے نفرت کرتے ہیں، بہر حال سوچ سمجھ کر بات کرتے تھے، یہی پیپلز پارٹی کے دور میں قمر الزماں کائرہ کی خصوصیت تھی۔ حکومت کے ترجمان کو ٹھنڈے مزاج کا حامل ہونا چاہیے، پہلے تو لو اور پھر بولو اُس کا شعار ہونا چاہیے، اپنے مقصد کے اظہار کے لیے الفاظ کا کم سے کم استعمال کرے۔ میرے بڑے بھائی انجینئر جمیل الرحمن قاضی سرکاری ملازمت میں تھے، وہ بتاتے تھے کہ جاپان، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور ورلڈ بینک کے نمائندوں سے ہمارا واسطہ پڑتا تو وہ ٹودی پوائنٹ بات کرتے، کم سے کم بولتے اور دفتری مراسلت میں بھی اختصار سے کام لیتے، کیوں کہ الفاظ جتنے کم ہوں گے، گرفت بھی اتنی کم ہوگی، جبکہ ہمارے ہاں بے مقصد لمبے لمبے ڈرافٹ بنانے اور موضوع سے ہٹ کر گفتگو کرنے کا شعار بہت زیادہ ہے، اسی لیے بآسانی گرفت میں آجاتے ہیں۔ جنابِ شیخ رشید کو اپنے گزشتہ دور میں بھی نئی ٹرینیں چلانے کا بہت شوق تھا، اخبار میں اشتہار آتے، کراچی سے ٹرین چلتی تو اس کا ایک نام ہوتا، راولپنڈی سے واپسی پر اس کا نام بدل جاتا، جبکہ ریلوے کی حالت روز بروز خراب ہورہی تھی۔ ریلوے میں کرپشن ہوئی یا نہیں، یہ طے کرنا متعلقہ اداروں کا کام ہے، لیکن مخالفین بھی مانتے ہیں کہ سعد رفیق نے ڈوبتی ہوئی ریلوے کو بحال کیا، اس کا معیار بہتر بنایا، اب لوگ ٹرین پر سفر کرتے ہیں، کئی دوستوں نے بتایا کہ ریلوے کا معیار اور باقاعدگی پہلے سے بہت بہتر ہے۔ ایک ڈوبے ہوئے ادارے کو مکمل طور پر مالی خسارے سے نکالنا آسان کام نہیں ہے۔ اسی طرح آتے ہی میانوالی ٹرین کا اعلان اور افتتاح اچھا تاثر نہیں دے گا، کیوں کہ میانوالی آپ کا آبائی شہر ہے، اس کے لیے تھوڑا سا انتظار بہتر رہے گا۔
میرا مشورہ ہے کہ جن وزراء کو روز میڈیا پر آنے اور زیادہ بولنے کا شوق ہے، انہیں پارٹی عہدے دیں اور پارٹی کے ترجمان بنائیں، وزراء کو کم سے کم اور سوچ سمجھ کر بولنے کا پابند بنائیں تو آپ کی حکومت کے حق میں بہتر رہے گا۔ کیا ہیلی کاپٹر کا پچپن روپے فی کلومیٹر کرایہ کسی صحافی یا آپ کے کسی سیاسی مخالف نے کھوج لگاکر پاتال سے نکالا ہے، یہ تو آپ کے وزیرِ بے تدبیر کا شاہکار، اہلِ صحافت اور سیاسی مخالفین کے لیے تحفہ ہے۔
اسی طرح آپ ایک بنگلے میں رہیں یا دوسرے میں، آپ وزیرِ اعظم ہاؤس ہی میں رہ رہے ہیں، ان امور کو موضوع بحث نہ بنائیں، جس دن آپ کوئی متبادل عملی حل نکال لیں تو اقدام پہلے کریں اور قوم کو بعد میں بتائیں، سرکاری گاڑیوں کو نیلام کرنے سے پہلے اپنی حکومت کی مستقبل کی ضروریات کا اندازہ لگالیں تو بہتر رہے گا۔ ایک ہزار سی سی کی گاڑیاں استعمال کرنے کے دعوے، پھر سرکاری گاڑیوں کو کوڑیوں کے بھاؤ بیچ کر نئی پرتعیش گاڑیاں خریدنے کے ڈرامے سے قوم پہلے ہی واقف ہے، یہ کوئی نیا تجربہ نہیں ہے۔ جناب قمرزماں کائرہ جنابِ شہباز شریف کو طنزاً ’’شوباز شریف‘‘ کہتے رہے ہیں، شوبازی سے اجتناب بہتر ہے۔
ملک وملت کا مسئلہ سابق وزیر اعظم اور اُن کے کھانے کے بلوں کا نہیں ہے۔ بنیادی مسئلہ اقتصادی ہے، ملک اقتصادی اعتبار سے مشکل صورتِ حال سے دوچار ہے، اسی سبب امریکا اپنا شکنجہ کَس رہا ہے کہ اُس کی نظر میں پاکستان کو زیادہ سے زیادہ دباؤ میں لاکر اپنے مطالبات اور شرائط منوائی جائیں۔ ہماری زرِ مبادلہ کی ضرورت چین بھی پوری نہیں کرسکتا، کیوں کہ چین آئی ایم ایف اور امریکا کی طرح نقد مال نہیں دیتا، وہ صرف منصوبوں پر مبنی قرض دیتا ہے، یہ سی پیک منصوبوں سے عیاں ہے۔ دوسرا اہم مسئلہ کرپشن کا ہے اور کرپشن کے خلاف کسی بھی اقدام یا کریک ڈاؤن کو پزیرائی تب ملے گی، جب یہ شفاف ہو، اس کا اطلاق سب پر یکساں ہو، جانب داری اور انتقام کا شائبہ نظر نہ آئے، ورنہ حکمت وتدبر سے عاری اقدامات بیک فائر بھی ہوسکتے ہیں۔
تیسرا اہم مسئلہ میرٹ پر تقرریوں کا ہے، حکومت کو پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں ہے، اُسے دوسرے اتحادیوں کو ملانا پڑ رہا ہے، ایسی صورت میں معیار پر مفاہمت مجبوری بن جاتی ہے، چناں چہ رؤف کلاسرا صاحب نے لکھا: ’’سابق اسپیکر اور موجودہ وزیر بین الصوبائی رابطہ محترمہ فہمیدہ مرزا اسپیکر شپ کے زمانے میں چوراسی کروڑ روپے کے قرضے معاف کرانے کے علاوہ امریکا میں علاج کے تیس لاکھ روپے بھی سرکاری خزانے سے وصول کرچکی ہیں اور اب آپ کی حکومت میں وزارت کا حلف اٹھا کر پوِتر ہوچکی ہیں‘‘۔ آپ نے صحافیوں سے کہا: ’’میں کسی کے ماضی کی گارنٹی نہیں دیتا، میرے دورِ حکومت میں اگر کچھ غلط ہو تو آپ تنقید یا نشاندہی کرسکتے ہیں‘‘، لیکن آپ خود تو اپنے سیاسی مخالفین کے ماضی کا حساب لے رہے ہیں، سو اس تضاد پر بھی سوالات اٹھیں گے۔ ہم اسلامی نظریاتی کونسل میں تھے، کونسل نے بینکوں سے قرض معاف کرانے والوں کی فہرست منگوائی، تو پتا چلا کہ گجرات کے چودھری برادران کے خاندان کے تقریباً سبھی مرد وزن اس نعمت سے فیض یاب ہوچکے ہیں۔ پس جب آدمی ایوانِ اقتدار کے بیت الجن میں داخل ہوتا ہے تو ان چشم کشا حقائق کا اُسے لازماً سامنا کرنا پڑتا ہے، لہٰذا آپ کے لیے بہتر ہے کہ سطحی امور کو نمایاں کرنے کے بجائے یکسو ہوکر اصل مسائل پر اپنی توجہات کو مرکوز کریں۔
آپ خوش نصیب ہیں کہ میڈیا کے غالب حصے کی ہمدردیاں آپ کو حاصل ہیں، وہ آپ کی غلطیوں کی نشاندہی کے باوجود تاحال نہ آپ کی حمایت سے دست کش ہوئے ہیں، نہ غلطیوں کی بنا پر آپ کو گردن زدنی قرار دے رہے ہیں اور نہ انہوں نے تحویل قبلہ کر کے اپنی حمایت کسی اور کے لیے وقف کی ہے۔ اُن کی یہ خواہش بجاہے کہ آپ نے جو خواب عوام کو دکھائے ہیں اور عوام نے جو توقعات آپ سے وابستہ کی ہیں، آپ اُن پر پورا اتریں، کیوں کہ اگر خدانخواستہ آپ کا تجربہ بھی ناکام رہا، تو قوم مایوسی کے اندھیروں میں گم ہوجائے گی اور پھر کسی نجات دہندہ سے توقعات وابستہ کرنے میں سوبار ہچکچائے گی۔ پس نظام کے بگاڑ کی اصلاح کی فوری توقع وابستہ کرناخام خیالی ہوگی، اگر ایک سال کے اندر سمت درست ہوجائے، نظام کی گاڑی صحیح ٹریک پر رواں دواں ہوجائے، تمام معاملات صاف وشفاف نظر آئیں، انتقام کی بو نہ آئے اور اقتصادی مشکلات کے حل کی کوئی قابلِ عمل تدبیر نکل آئے تو بسا غنیمت ہوگا۔ البتہ میڈیا شہد کی بوتلوں، ہیلی کاپٹر کے پچپن روپے فی میل کرائے ایسے معاملات سے کھیلتا رہے گا، آخر وہ اپنی دکانیں بند تو نہیں کرسکتے، پس گلشن کا کاروبار اسی طرح چلتا رہے گا اور آپ بھی اس کے عادی ہوجائیں گے۔