اسٹریٹ کرائمز میں اضافہ ۔ ذمے دار کون؟

274

ہمارے حکمرانوں کا یہ رویہ عجیب ہے کہ کبھی کسی غلطی کی ذمے داری قبول نہیں کرتے۔ خزانہ خالی ہے تو سابقہ حکمرانوں کی وجہ سے ،بجلی نہیں ہے تو سابقہ حکمرانوں کی وجہ سے ،پانی نہیں ہے تو ذمے دار سابق حکمران یہاں تک کہ امن و امان کی خرابی کی ذمے داری بھی اب سابق نگراں حکومت پر ڈال دی گئی ۔ کراچی کی سڑکوں پرمجرم دندناتے پھر رہے ہیں ، کھلے عام وار اتیں ہوتی ہیں ۔ پستول اور ٹی ٹی وغیرہ ایسے لہرائے جاتے ہیں جیسے کوئی جھنڈیاں لہرا رہا ہو ۔ جس کو چاہے لوٹ لیا جاتا ہے ۔ نہ عورت دیکھی جاتی ہے نہ مرد نہ بچہ کراچی میں معرکۃ الآرا کراچی آپریشن تین سال سے جاری ہے نگراں حکومت نے بھی اسے جاری رکھا اور دوبارہ آنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی اسے جاری رکھا لیکن اچانک اسٹریٹ کرائمز کی وار داتوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے ۔ بات یہاں تک پہنچی کہ میئر کراچی کی سرکاری گاڑی بھی ڈیفنس کے علاقے میں چھن گئی ۔وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے جھٹ کہہ دیا کہ اسٹریٹ کرائمز میں اضافہ نگراں دور میں ہوا تھا ہم اس پر قابو پا رہے ہیں ۔ ارے بھائی 25 جولائی کو انتخابات ہوئے نگراں حکومت کی رخصتی کو بھی ایک ماہ سے زیادہ ہو چکا اب تو آپ ہی حکمران ہیں اور یوں بھی پوری انتظامیہ پیپلز پارٹی کی ما تحت ہے پھر یہ سب کیسے ہو رہا ہے ۔ ایک خوفناک بات جو کافی عرصے سے ہو رہی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد راتوں کو گھروں کے تالے کاٹ کر گھستے ہیں اور تلاشیاں لیتے ہیں انداز ڈاکوؤں والا ہوتا ہے اور کہتے ہیں کہ خبر دار ہم سرکاری ادارے کے لوگ ہیں زیادہ تر یہی کہا جاتا ہے کہ پولیس آئی ہے ۔ اور پھر اپنے مطلوبہ فرد یا افراد کو پکڑ کر لے جاتے ہیں پھر پتا نہیں چلتا کہ وہ کہاں گئے بالکل یہی طریقہ وار دات ڈاکوؤں نے بھی اختیارکر لیا اور نشانہ بنایا صوبائی وزیر مکیش چاؤلہ کے سیکرٹری کو ان کے گھر میں اسی طرح مسلح افراد داخل ہوئے اور سرکاری اہلکار ظاہر کر کے تلاشی لینے لگے اور گھر سے لاکھوں روپے زیورات اور قیمتی اشیاء لے گئے ۔ اب اگر کوئی مزاحمت کرے اور واقعی وہ سرکاری اہلکار ہوں تو دوسرا مقدمہ بن جائے گا اور اگر مزاحمت نہ کرے تو سامنے کھڑے ہو کر گھر لٹوا لے گا ۔ یہ وار داتیں بھی عام ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تین سال سے کون سا آپریشن ہو رہا تھا کہ نگراں حکومت کے چند ہفتوں کے اقتدار میں سارا آپریشن اُلٹ گیا ۔ در اصل یہ آپریشن بھی آپریشن ردو بدل کے سلسلے کی ایک کڑی نکلا جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا انہیں ایم کیو ایم لندن سے ایم کیو ایم پاکستان کا کارکن بنانے اور پی ایس پی میں شامل کرانے کے لیے پورے سال جیلوں میں تنظیم سازی ہوتی رہی ایک ایک کر کے سارے اسٹریٹ کرمنلز رہا کر دیے گئے ۔ کچھ نا پسندیدہ تھے اس لیے اب بھی اندر ہیں اور پسندیدہ لوگوں کو معزز بنا دیا گیا ۔ ایسے آپریشن کا ایسا ہی نتیجہ ہو گا۔ ایک جانب میڈیا کا معاملہ بھی عجیب ہے اسٹریٹ کرائمز کی وار داتیں تو پہلے بھی ہورہی تھیں لیکن میڈیا خاموش تھا ۔ اچانک اس کا شور مچانے اور اب وار داتوں کی خبروں کو بریکنگ نیوز بنانے کا اشارہ بھی کہیں نہ کہیں سے ہوا ہو گا ۔ گلی گلی میں لوگ لٹ رہے تھے ۔ گاڑیاں بھی چھن رہی تھیں اور بنک اوردُکانیں بھی لیکن میڈیا خاموش بیٹھا تھا ۔ یہ میڈیا کبھی موجود کو غائب کر دیتا ہے اور کبھی رائی کا پہاڑ بنا دیتا ہے ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق بھی لوٹ مار اسٹریٹ کرائمز اور دیگر جرائم میں کوئی کمی نہیں ہوئی تھی ۔ یہ سب میڈیا کے ذریعے پھیلایا اور سکیڑا جار ہا ہے ۔ جب یہ ثابت کرنا ہو کہ امن ہو گیا تو سب امن امن کی رٹ لگانے لگتے ہیں اور جب جرائم کا ہوا کھڑا کرنا ہو تو ہر خبر نشر ہوتی ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت بھی اپنی ذمے داری قبول کرے اور عوام کے ساتھ ساتھ اپنے وزیروں اور ان کے اہلکاروں کے تحفظ کے اقدامات بھی یقینی بنائے ۔ ذمے داری نہ لینے کا شاخسانہ یہ ہے کہ میئر کراچی اختیارات اختیارات کرتے ہوئے تین سال گزار چکے اور میئر شپ بھی چھوڑنے پر تیار نہیں ان کی ناک کے نیچے پورا شہر کچرا گھر بنا ہوا ہے وہ اپنی ذمے داری پوری کرنے کے بجائے اختیارات اور فنڈز کا رونا رو رہے ہیں یہاں تک نوبت پہنچ گئی کہ انہوں نے جس شخص کو ٹی وی پر گالی دے کر کہا تھا کہ کراچی آ کر دیکھو۔۔۔ وہ اب وزیر اعظم بن کر کراچی آئے گا اور کراچی سے کچرا صاف کرنے کا اولین ایجنڈا لے کر آئے گا اور یہی میئر اس کا استقبال کر رہے ہوں گے کہ کراچی آ کر دیکھو۔۔۔ اسی شہر میں سخی حسن کے پمپنگ اسٹیشن کے ٹینک سے مردہ کتا برآمد ہوا ۔ اگرچہ واٹر بورڈ نے ٹینک کی صفائی بھی کرا لی اور کتا بھی نکال لیا لیکن اس غفلت کے نتیجے میں لاکھوں صارفین کو کئی روز تک ناپاک پانی فراہم کیا جاتا رہا اس حوالے سے میئر اور واٹربورڈ کا عملہ کیا وضاحت کرے گا کہ یہ بھی کسی اور کی غلطی تھی بس حفاظتی انتظامات کرنے کی ہدایت کر دی گئی ہے جس طرح پمپنگ اسٹیشن سے کتا نکال کر صفائی کی گئی ہے اسی طرح سیاسی نظام سے بھی کتا نکال کر صفائی کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ایک دوسرے پر الزام کا بوجھ منتقل کرنے کا کھیل جاری رہے گا عوام لٹتے رہیں گے اور ناپاک پانی پیتے رہیں گے ۔