کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی)ملٹری انٹیلی جنس نے برسوں سے لاپتامزید 8افرادکی اپنی تحویل میں ہونے کااعتراف کرلیا۔ ان افرادکو فاٹا ریگولیشن کے تحت قائم حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے، ایم آئی نے یہ اعتراف لاپتا افراد کی تلاش کے لیے بنائے گئے کمیشن کے سامنے کیا ہے، ایم آئی نے کمیشن کو ان افراد کوجلدان کے اہل خانہ سے ملانے کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔ یکم ستمبر کولاپتا افراد کے کمیشن کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق اگست میں ملک بھر سے مزید 57افراد جبری طور پر لاپتا کیے گئے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اسوقت ملک میں لاپتا افراد کی تعداد 1830 ہے جبکہ آزاد ذرائع یہ تعداد ساڑھے 5ہزار سے زاید بتاتے ہیں۔ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ایم آئی کے نمائندے نے 2009ء میں ڈسٹرکٹ سوات سے لاپتا ہونے والے 2 بھائیوں مسلم خان اور اطہر زمان ولد محمد زمان کے بارے میں انکشاف کیا کہ وہ 2011کے ریگولیشن کے تحت فاٹا میں قائم حراستی مرکز پائیتھم میں موجود ہیں۔ اسی طرح 2013میں مردان، ملاکنڈ اور بونیر سے لاپتا ہونے والے3 نوجوان صلاح الدین‘ محمد طیب اور اختر زیب کے بارے میں بھی ایم آئی کے نمائندے نے اپنی تحویل میں ہونے کا اعتراف کیا۔ صلاح الدین اور طیب پائیتھم میں قائم حراستی مرکز جبکہ اختر زیب کو سوات کے علاقے فضا گھٹ کے حراستی مرکز میں رکھا گیا ہے۔جبکہ 2016ء میں مہمند ایجنسی سے غائب کاشف خان کے بارے میں بھی ملٹری انٹیلی جنس کے نمائندے نے غلانی حراستی مرکز میں موجودگی کا اعتراف کیا۔ رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ لاپتا افراد میں سے متعدد برسوں بعد اپنے گھروں کو پراسرار طور پر اپنے گھروں کو پہنچ گئے ہیں تاہم ان میں سے بیشتر نے اپنے لاپتا ہونے کے بارے میں کسی بھی قسم کی تفصیل بتانے سے گریز کیا ہے۔ تاہم ٹانگ ڈسٹرکٹ کے علاقے مرتضیٰ روڈ سے 2017ء میں لاپتا ہونے والے کلیم اللہ نے 3اگست2018ء ہونے والے کمیشن کے اجلاس میں اپنا بیان ریکارڈ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ فوجی یونیفارم پہنے افراد کی تحویل میں تھا۔ 2014ء میں مہمند ایجنسی سے جبری لاپتا ہونے والے زرولی کے بارے میں بھی فوجی انٹیلی جنس کے اہلکار نے اعتراف کیا کہ وہ زرولی ان کی تحویل میں تھا تاہم 28مئی 2018ء کو اسے ڈی سی مہمند ایجنسی کے حوالے کردیا گیا ۔ اسی طرح برسوں سے لاپتا کئی افراد کے بارے میں انکشاف ہو اکہ وہ ملک کی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔ واضح رہے کہ انڈر ایکشن ( ان اینڈ آف سول پاور2011ء )کے تحت فاٹا میں مختلف حراستی مراکز قائم کیے گئے تھے جس کا مقصد ان افراد کو قید میں رکھنا تھا جن کے بارے میں شبہ تھا کہ وہ ملک میں دہشت گردی یا بدامنی کے واقعات میں ملوث ہیں ، تاہم مذکورہ قانون کے تحت گرفتار ہونے والے تمام افراد کو زیادہ سے زیادہ تین ماہ تک بغیر کسی عدالت میں پیش کیے حراست میں رکھا جاسکتا تھا جبکہ حراستی مراکز کے منتظمین اس بات کے پابند تھے کہ قیدیوں کو ان کے اہل خانہ سے وقتا فوقتا ملاقاتیں کراتے رہیں اور تین ماہ سے زاید قید رکھنے کی صورت میں انہیں عدالت میں پیش کریں تاہم ریگولیشن کی اس شق پر تاحال عمل درآمد نہیں کیاگیا جس کا واضح ثبوت یکم ستمبر اور اس سے قبل جاری ہونیوالی لاپتا افراد کے کمیشن کی جاری رپورٹس سے ملتا ہے۔