ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ

680

 

 

وزیر اعظم پاکستان جنابِ عمران خان نے ریاست کے نظمِ اجتماعی کے حوالے سے مختلف ورکنگ گروپس یا ٹاسک فورسز بنائی ہیں، جو حکومتی نظام کو صحیح ٹریک پر رواں دواں رکھنے کے لیے تجاویز مرتب کریں گی، کام کرنے کا یہ انداز درست ہے، کیوں کہ اجتماعی مشاورت میں برکت ہوتی ہے۔ چناں چہ انہوں نے اقتصادی اصلاحات کے لیے ’’اکنامک ایڈوائزری کونسل‘‘ بنائی۔ ہم حُسنِ ظن سے کام لیتے ہوئے یہ ماننے کے لیے تیار ہیں کہ جنابِ عمران خان کا پسِ منظر مذہبی نہیں ہے اور نہ وہ مذہبی حساسیت کے بارے میں زیادہ آگہی رکھتے ہیں، سو انہوں نے اکنامک ایڈوائزری کونسل میں ایک قادیانی عاطف میاں کو شامل کرلیا۔ اب میڈیا سے معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے عاطف میاں کا نام اس کونسل سے نکال دیا ہے، ان کا یہ اقدام لائقِ تحسین ہے، اس کے ذریعے انہوں نے ملک کو ایک بحران سے بچالیا ہے۔ کاش! ہمارے حکمرانوں کا شِعار ایسا ہی رہے کہ اگر انہیں ملک وملّت کے وسیع تر مفاد میں کسی معاملے میں ایک قدم پیچھے بھی ہٹنا پڑے، تو وہ اس میں تردُّد نہ کریں، اپنی اَنا کو آڑے نہ آنے دیں، تو اس میں یقیناًخیر ہے۔
اس کے برعکس وزیر اطلاعات جنابِ فواد چودھری نے اپنی قیادت کو اس کی حسّاسیت سے آگاہ کیے بغیراس اِقدام کا دفاع کرنا شروع کردیا، یہ وزیرِ بے تدبیر کی بے احتیاطی کا مظہر ہے۔ اس مسئلے کو یک دم انہوں نے اقلیتوں کے حقوق سے جوڑا اور کہا: ’’ہم انتہا پسندوں کے دباؤ میں نہیں آئیں گے اور ہم اقلیتوں کے حقوق کا دفاع کریں گے‘‘۔ ’’ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ‘‘ کا محاورہ اُن کی اس ادا پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ چناں چہ مسلم لیگ ن کے لبرل عناصر اور ان کے حامی دانشور بھی چودھری صاحب کی مدد کو آپہنچے، شاید وہ فواد چودھری صاحب کو شہ دینا چاہتے ہوں کہ: ’’چڑھ جا بیٹا سولی پر،رام بھلی کرے گا‘‘۔ ہر سطح کے حکومتی ذمے داران کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان میں قادیانیوں کا مسئلہ انتہائی حساس ہے، لہٰذا اس سلسلے میں پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔
2012 میں ایوانِ صدر اسلام آباد میں اُس وقت کے صدر جنابِ آصف علی زرداری کی صدارت میں منعقدہ ’’بین المذاہب کانفرنس‘‘ میں متفقہ ڈکلریشن جاری ہوا، اس اعلامیے کا بنیادی اردو اور انگریزی مسوّدہ میں نے مرتّب کیا تھا اور بعد میں نوک پلک درست کر کے اسے حتمی شکل دی گئی تھی۔ پھر اس اعلامیے کا انگریزی ورژن اُس وقت کے سیکرٹری وزارتِ بین المذاہب ہم آہنگی جنابِ اعجاز چودھری اور اردو متن میں نے پڑھ کے سنایا تھا، اُس میں ہم واشگاف الفاظ میں یہ اعلان کرچکے ہیں کہ ’’اقلیت (Minority)‘‘ کی اصطلاح ترک کردینی چاہیے، اس سے احساسِ محرومی پیدا ہوتا ہے، مزید یہ کہ اقلیت ایک اضافی اصطلاح ہے، مثلاً: پاکستان میں مسلم اکثریت کے مقابلے میں ہندو اقلیت میں ہیں اور ہندوستان میں ہندو اکثریت کے مقابلے میں مسلمان اقلیت میں ہیں، یہی صورتِ حال مسیحیت کے اعتبار سے پاکستان اور مغربی ممالک کی ہے۔ ہمیں قرار دینا چاہیے کہ مسلمانوں کے علاوہ جو بھی پابندِ آئین وقانون غیر مسلم (ہندو، سکھ، مسیحی، پارسی وغیرہ) شہری ہیں، انہیں غیر مسلم پاکستانی کہہ کر مخاطب کیا جائے۔ اسلام اور دستورِ پاکستان ان سب کو جان ومال اور آبرو کا تحفظ دیتا ہے، انہیں اپنی عبادت گاہوں میں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل اجازت ہے، مسلمانوں کی طرح وہ بھی حیاتِ اجتماعی کے مختلف شعبوں میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں، اُن پر اعلیٰ تعلیم کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں غیر مسلم بڑے بڑے عہدوں (جیسے چیف جسٹس آف پاکستان) پر فائز رہے ہیں۔ ماضی میں غیر مسلم پاکستانیوں کے خلاف دہشت گردی کے اِکّا دُکّا واقعات ہوئے ہیں، ہم اس کی شدید مذمت اور اس پر رنج وملال کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ لیکن ہمارے غیر مسلم اہلِ وطن کوبھی معلوم ہے کہ اُن کے مقابلے میں بدرجہا زاید تعداد میں مسلمان دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں، یہ ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ہے، پوری قوم کو مل کر اس سے نمٹنا ہوگا۔ الحمد للہ علیٰ احسانہٖ! ہماری مسلّح افواج نے گراں قدر قربانیاں دے کر اس مسئلے پر اگر مکمل طور پر نہیں، تو کافی حد تک قابو پالیا ہے، ہماری دعا ہے کہ ہمارے جسدِ ملّی میں پیوست یہ ناسور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نیست ونابود ہوجائے۔ 16جنوری 2018ء کو ایوانِ صدر میں ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کے اجرا کے موقع پر خطاب کے دوران میں نے پھر اس بات کا اعادہ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’پاکستان میں جان ومال اور آبرو کے تحفظ کا جو حق صدر ممنون حسین، منیب الرحمن اور اس نمائندہ اجتماع میں دیگر معتبر شخصیات کو حاصل ہے، وہی حق تمام پابندِ آئین وقانون غیر مسلم پاکستانیوں کو بھی حاصل ہے‘‘۔
لیکن جنابِ فواد چودھری کو معلوم ہونا چاہیے کہ قادیانیوں کا مسئلہ دیگر غیر مسلم پاکستانیوں سے مختلف ہے، اسلام اور دستورِ پاکستان کی رُو سے وہ خارج از اسلام ہیں، وہ اپنا کوئی بھی نام اور پہچان رکھ سکتے ہیں، لیکن اُن کا اپنے آپ کو ایک مسلم فرقے کے طور پر ظاہر کرنا دستورِ پاکستان کے خلاف ہے۔ ایک لبرل کالم نگار، جو سیاست میں پی ٹی آئی کے مخالف ہیں، لیکن لبرل ازم میں فواد چودھری صاحب کے ہمنوا ہیں، نے قادیانیوں کے مسئلے کو دیگر غیر مسلموں سے جوڑا ہے۔ ان کی خدمت میں عرض ہے: کسی غیر مسلم نے مسلمانوں کو کنجریوں کی اولاد نہیں کہا، یہ نہیں کہا کہ مجھ پر ایمان نہ لانے والے سارے کافر ہیں، دینی مقدَّسات کی اہانت نہیں کی، سو قادیانیوں کا مسئلہ مختلف ہے۔ اگر کوئی اور فرد بھی ہماری دینی مقدّسات کی توہین کرے تو ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ اُسے بھی قانون کی گرفت میں لے کر قرارِ واقعی سزا دے۔ عالمی سطح پر یہی مسئلہ مسلمانوں کو پریشان کر رہا ہے کہ اظہارِ رائے کی آزادی یا فریڈم آف پریس کی آڑ میں ہمارے مقدّساتِ دینیہ کی اہانت کی جاتی ہے اور یہ ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے اعلیٰ مناصب پر فائز حضرات نے جذبات میں آکے اعلان کردیا کہ ہم پروٹوکول نہیں لیں گے، بعد میں ایوانِ اقتدار کے بیت الجن میں داخل ہونے کے بعد اُن کی آنکھیں کھل گئیں اور اب تاویلات کا سلسلہ چل نکلا ہے کہ ہم سیکورٹی لیں گے، پروٹوکول نہیں لیں گے۔ ان سادہ لوح یا انتہائی دانش مند لوگوں کو کون بتائے کہ عوام کی نظر میں پروٹوکول اور سیکورٹی میں کوئی فرق نہیں ہے، اگر کسی کے آگے یا پیچھے ایک پولیس اسکارٹ بھی جارہی ہو، تو عوام اسے بھی پروٹوکول سمجھتے ہیں۔ پس سیاسی قائدین کو سوچ سمجھ کر دعوے کرنے چاہییں، ورنہ ان کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ اُن کے پاؤں کی زنجیر بن جاتے ہیں، ایسے سوالات کی گنجائش وہ خود پیدا کرتے ہیں، یہ کسی اور کے پیدا کردہ مسائل نہیں ہوتے۔ ہمارا ملک نائن الیون کے بعد جس طرح کے حالات سے گزر رہا ہے، ان میں اعلیٰ حکومتی شخصیات کے لیے سیکورٹی ناگزیر ہے، البتہ وی آئی پی شخصیات کے لیے سڑکیں بند کرنے اور ناکے لگانے کا جہاں کوئی قابلِ عمل متبادل دستیاب ہو، تو اُسے اختیار کرنے پر اعتراض کے بجائے تحسین کرنی چاہیے، اسی لیے ہم وزیر اعظم کے ہیلی کاپٹر سے بنی گالہ جانے اور آنے کی تائید کرتے ہیں۔
برصغیر میں مسلمان طویل عرصہ حکمران رہے، مغلیہ بادشاہت کے دور میں ایک حکمران محمد شاہ تھا، اُس کے عہدِ حکومت میں نادر شاہ کی لوٹ مار پر اُن کے وزیراعظم ناظم الملک آصف جاہ کا یہ مصرع بہت مشہور ہوا: ’’شامتِ اعمال ما، صورتِ نادر گرفت‘‘، یعنی نادر شاہ کا مسلّط ہونا ہمارے اپنے اعمال کا شاخسانہ ہے۔ سو آج کل پی ٹی آئی کے نادر شاہ جنابِ فواد چودھری ہیں، حضرت بسیار گو ہیں، بڑے متکلم ہیں، بہت زیادہ بولے بغیر شاید اُن کا کھانا بھی ہضم نہیں ہوتا، ہیلی کاپٹر کا کرایہ پچپن روپے فی کلومیٹر تو ہر طرف موضوعِ بحث ہے۔ مسلم لیگ ن میں بھی طلال چودھری اور دانیال عزیز صاحبان ایسی شاہکار شخصیات تھیں جو اپنی بسیار گوئی کے سبب نشانِ عبرت بن گئیں۔ ایک طویل حدیث میں سیدنا معاذ بیان کرتے ہیں: نبی کریم ؐ نے مجھ سے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں دین کی اصل، اس کا ستون اور اس کی چوٹی نہ بتا دوں؟ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! ضرور بتائیے!، آپ ؐنے فرمایا: دین کی اصل اسلام ہے، اس کا ستون نماز ہے اور اس کی چوٹی جہاد ہے۔ پھر آپ ؐنے فرمایا: کیا میں تمہیں وہ چیز بتادوں جس پر ان سب چیزوں کا مدار ہے، میں نے عرض کیا: یا نبی اللہ! ضرور بتائیے! پھر آپ ؐنے اپنی زبان پکڑ کر فرمایا: اسے اپنے قابو میں رکھو، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! کیا ہم اپنی گفتار پر پکڑے جائیں گے، آپ ؐنے (عتاب کرتے ہوئے) فرمایا: معاذ! تمہاری ماں تمہیں روئے، (قیامت کے دن) جو لوگ اوندھے منہ یا نتھنوں کے بل جہنم میں ڈالے جائیں گے، تو یہ اُن کی اپنی زبانوں کی کاشت کی ہوئی فصل ہی تو ہوگی، (سنن ترمذی)‘‘۔ نبی کریمؐ نے ایک طویل حدیث میں فرمایا: ’’(مومن کو چاہیے) اچھی بات کہے یا (اگر اس کی توفیق اُسے نصیب نہیں ہے تو) خاموش رہے، (صحیح البخاری)‘‘۔
اسی طرح آپ ؐ نے فرمایا: ’’جو مجھے اپنی دو ڈاڑھوں کے درمیان (یعنی زبان) اور اپنی دو ٹانگوں کے درمیان (یعنی شرمگاہ کی حفاظت کی) ضمانت دے، تو میں اُسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں، (صحیح البخاری)‘‘۔
اپنی سیاسی پارٹی کی ترجمانی کی حیثیت اور ہوتی ہے، اگر کسی بات کی زد پارٹی مفاد پر پڑتی ہو، تو کہہ دیا جاتا ہے: ’’یہ اُن کی ذاتی رائے ہے، پارٹی پالیسی نہیں ہے‘‘، لیکن وزیر اطلاعات اپنے منصب کے اعتبار سے حکومت کا ترجمان ہوتا ہے، اس کی زبان سے نکلے ہوئے کلمات کو لوگ حکومت کی پالیسی کے طور پر لیتے ہیں، لہٰذا بے احتیاطی پر مبنی کلمات کی زد حکومت پر پڑنا لازمی ہے، اس لیے جناب فواد چودھری کو ہمارا مشورہ ہے کہ جب تک وہ اس منصب پر فائز ہیں، پہلے تولیں اور پھر بولیں، کم بولیں لیکن صحیح بولیں، بامعنی بات کریں، غیر ضروری بیانات سے گریز کریں، اپنی حکومت کے لیے اثاثہ بنیں، بوجھ نہ بنیں، یہ کلمات ہم نے اُن کی خیرخواہی میں لکھے ہیں۔