دو وزرائے خارجہ دو کہانیاں 

331

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے چند گھنٹے کے دورے کے بعد ہی چینی وزیر خارجہ وانگ ژی پاکستان کے تین روزہ دورے پر پہنچے۔ چینی وزیر خارجہ نے اپنے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیر اعظم عمران خان سے ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں ہونے والی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ پاک چین تعلقات باہمی احترام پر مبنی ہیں۔ پاکستان کو کئی بین الاقوامی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اقتصادی راہداری پاکستان کی اولین ترجیح ہے۔ چین پاکستان کی معیشت کو مشکلات سے نکالنے میں ہر ممکن کردار ادا کرے گا۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیاں قابل تعریف ہیں۔ عمران خان کو دور�ۂ چین کی دعوت۔ یہ وہ باتیں جو امریکی وزیر خارجہ کے دورے میں سننے کو نہیں ملیں بلکہ اس ملاقات پر ناگواریت کے سائے منڈلاتے رہے۔ چند ناگوار گھنٹے پاکستان میں گزارنے کے بعد امریکی وزیر خارجہ بھارت گئے اور کئی روز تک بھارت کے مہمان بنے رہے اور دوطرفہ معاہدات اور عہد وپیماں کے ذریعے کھل کر لطف وعنایات کی برسات ہو تی رہی۔ اس دورے میں پاک امریکا تعلقات کی ری سیٹنگ یا تجدید کا دعویٰ تو کیا گیا مگر یہ دعویٰ ہواؤں ہی میں معلق معلوم ہوتا ہے۔ زمینی صورت حال اس دعوے کے قطعی برعکس دکھائی دیتی ہے۔
امریکا اور بھارت کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں جی بھر پاکستان کو مطعون کیا گیا یوں لگتا تھا کہ بھارت کے تحریر کردہ اسکرپٹ پر امریکی وزیر خارجہ نے صرف دستخط کرنے کا تکلف فرمایا ہے اب اس ماحول میں چینی وزیر خارجہ نے پاکستان کا تین روزہ دورہ کیا اور کئی اہم معاملات پر بات چیت کے علاوہ دوطرفہ تعاون کو مزید بلندیوں تک پہنچانے کا عہد کیا گیا۔ نومبر میں عمران خان کا متوقع دورہ ان تعلقات کو مزید گہرا کرنے کا باعث بنے گا۔ چینی وزیر خارجہ کے دورے کے بعد اچانک سی پیک منصوبوں کے حوالے سے شکوک وشبہات کا اظہار ہونے لگا یہاں تک کہ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کو پاکستان کے مشیر صنعت وتجارت وسرمایہ کاری عبدالرزاق داؤد کے انٹرویو نے تہلکہ ہی مچادیا۔ جس میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک سال کے لیے سی پیک منصوبوں پر کام مؤخر کر سکتا ہے۔ عبدالرزاق داؤد نے انٹرویو کے سیاق و سباق سے کاٹ کر شائع کرنے کی بات کی جبکہ چین نے اس رپورٹ کو مسترد کیا۔ اپوزیشن جماعت بالخصوص مسلم لیگ ن نے سی پیک کے منصوبوں کے موخر کیے جانے کی خبروں پر شدید تنقید کی ہے۔ اب چین اور پاکستان دونوں نے سی پیک منصوبوں پر کام کو مقررہ میعاد میں مکمل کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
سی پیک منصوبوں کے معاہدات کی نوعیت، توازن، نفع ونقصان کا ازسرنو جائزہ لینا کوئی غلط بات بھی نہیں۔ ماضی کی حکومت نے کریڈٹ اور افتتاحی تقریبات کے چکر میں معاہدوں میں شفافیت کا جس حد تک خیال رکھا ہے یہ جاننا نئی حکومت کی ذمے داری ہے۔ سی پیک گیم چینجر ہے مگر یہ آوازیں دبے لفظوں میں اُٹھنے لگی تھیں کہ پاکستان اس وقت معیشت کے اعتبار سے مرد بیمار ہے۔ اس کی معیشت کی سانسیں آکسیجن ماسک پر جاری ہیں۔ مشکل کی کس گھڑی میں حکومت کو کچھ طویل المیعاد اور کچھ فوری فیصلے کرنا ہیں۔ طویل المیعاد فیصلوں میں قانون کی حکمرانی، کرپشن کا خاتمہ سادگی اور اصراف سے گریز، ڈیموں کی تعمیر وغیرہ شامل ہیں۔ فوری فیصلوں میں سب سے اہم زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانا اور قرض لینا یا اس سے گریز کی تدبیر کرنا ہے۔ اس مرحلے پر پاکستان کی معیشت کو باہر سے سہارا نہ ملا توپھر کڑوے اور کڑے فیصلوں کے سوا چارہ نہیں۔ اس لحاظ سے سی پیک کے حوالے سے ہر معاہدے کو صحیف�ۂ آسمانی جیسا تقدس نہیں دیا جا سکتا۔ جب ہم کسی اور کی جنگ نہ لڑنے کی بات کرتے ہیں تو پھر یہ جنگ معاشی بھی ہو سکتی ہے کسی اور کے لیے ہم اپنا نقصان بھی برداشت کرنا اپنا حلیہ بگاڑنا بھی کسی اور کی جنگ لڑنے کے متردف ہے۔ تاہم اس افسانے کو ہوا اس لیے ملی کہ سری لنکا، میانمر اور ملائیشیا میں چینی کے ساتھ معاشی معاملات اور معاہدات تنقید کی زد میں ہیں۔ جن میں ایک اہم موڑ ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد کا اپنی پیش رو حکومت کی طرف سے چین سے کیے معاہدات پر نظرثانی کا اعلان اور چین کی پالیسیوں کو نوآبادیاتی طرز عمل کہنا تھا۔ مہاتیر محمد مغرب کے پسندیدہ نہیں بلکہ وہ چین کے مداح ہیں مگر ان کی طرف سے پیش رو حکومت کے معاہدات میں جھول پر تنقید نے چین کو اپنی تجارتی کمپنیوں اور بینکوں کے حوالے سے خود احتسابی کی راہ پر ضرور ڈالا ہوگا۔
چین اور پاکستان کے معاشی تعلقات میں جس قدر شفافیت اور دیانت اور برابری کے اصول کی کارفرمائی ہونا دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے کیوں کہ دونوں کے درمیان آجر اور اجیر کا تعلق نہیں بلکہ صدیوں پر محیط شراکت داری کا سفر شروع ہو نے کو ہے۔ چین اور امریکا میں اس وقت مخاصمت کی فضاء قائم ہے اور اس فضاء کو مزید مضبوط بنانے کے لیے امریکا تیزی سے کام کر رہا ہے۔ دونوں طاقتوں کے درمیان تجارتی میدان میں مسابقت جاری ہے اور جنوبی چین کے جزیروں میں بالادستی کا ایک کھیل بھی چل رہا ہے۔ امریکا چین کے مقابلے میں بھارت کو مصنوعی طور پر شیر بنارہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے دورہ بھارت میں یہ معنی خیز جملہ ادا کرکے کہ امریکا بھارت کے عالمی طاقت بننے کے حق کی حمایت کر رہا ہے۔ مستقبل کے عزائم اور منصوبوں کا اظہار کیا تھا۔ چین دہائیوں سے بنی بنائی اور مسلمہ عالمی طاقت ہے۔ جس نے عام آدمی کا میعار زندگی بلند کرنے کے لیے اور اپنی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیے طویل سفر طے کیا ہے۔ بھارت میں کروڑوں لوگ خطِ غربت سے نیچے ہیں اور کروڑں گھرانے لیٹرینوں اور پینے کے پانی سے محروم ہیں۔ لیٹرینوں میں پھنسے ہوئے بھارت اور معاشی ترقی کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے چین کا کوئی موازنہ اور مقابلہ نہیں بنتا مگر امریکا مصنوعی طور بھارت کو عالمی طاقت بنانے پر مُصر ہے جس سے خطے میں ایک کشمکش جاری ہے۔ ایسے میں چین اور پاکستان کا قریبی تعاون جہاں دونوں کے مفاد میں ہے وہیں اس سے خطے کا مستقل امن اور استحکام بھی وابستہ ہے۔