پنڈی والے 

215

شیخ رشید نے وفاقی وزیر ریلوے کی حیثیت سے ریلوے میں دوبارہ قدم رکھا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ دس سال قبل انہوں نے ریلوے کو جس طرح بے حال چھوڑا تھا، آج اس سے بھی زیادہ بدحال ہے، ریلوے آج بھی انہی مسائل میں گھرا ہوا ہے جن سے دس برس پہلے دوچار تھا۔ موصوف نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ جب تک ریلوے کی وزارت ان کے پاس ہے وہ کسی کو سکون کا سانس لینے نہیں دیں گے، نہ خود آرام کریں گے نہ کسی کو آرام کرنے دیں گے۔ وہ سکون کا سانس لیتے ہیں یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر موصوف نے ’’نیا پاکستان‘‘ کی بنیاد رکھ دی ہے اور عوام کو بے سکون کردیا ہے۔
شیخ صاحب ریلوے کے موجودہ کرائے سے مطمئن نہیں غالباً ان کا خیال ہے کہ ریلوے کے خسارے کا سبب کم کرایہ ہے سو، انہوں نے ریلوے کرائے میں 20 فی صد اضافے کے عزم کا اظہار کیا ہے، گویا ریلوے کی آمدن بڑھانے اور خسارہ کم کرنے کا ہدف پورا کرلیا ہے مگر اس اقدام سے جو آمدن ہوگی وہ تو ٹاسک فورس پر خرچ ہوجائے گی۔ شیخ صاحب! کا ارشاد گرامی ہے کہ وہ ریلوے کے تمام اسپتالوں کی نجکاری کریں گے لیکن کسی کو بے روزگار نہیں کریں گے، ریلوے کی زمینوں پر کمرشل پلازے بنائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ شیخ صاحب! پہلے بھی ریلوے کے وفاقی وزیر رہے ہیں اس وقت ریلوے کی آمدن بڑھانے کے لیے یہ اقدامات کیوں نہیں کیے؟۔ غور طلب امر یہ بھی ہے کہ ملکی ادارے نیلام کرنے کی سوچ کے حامل حکمران اپنی املاک کیوں نہیں بیچتے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ شیخ صاحب نے اس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کرلیا ہے کہ وہ آئندہ وزیر نہیں بنیں گے اس لیے مستقبل کو زیادہ سے زیادہ محفوظ کرلیں۔
سابق وزیر ریلوے سعد رفیق کا کہنا کہ ٹرین سے شیخ صاحب کے سفر کی فخریہ ویڈیو ہماری محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سعد رفیق نے شیخ صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے آپ کے حوالے ایک ایسی ریلوے کی ہے جس میں سفر کرتے ہوئے آپ فخر محسوس کررہے ہیں۔ یہ قوم کا فخر ہے اور اسے برقرار رہنا چاہیے۔ موصوف نے شیخ رشید کو یہ بھی یاد دلایا کہ یہ وہ ریلوے ہے جس کی آمدن 18 ارب روپے تھی ہم نے اس میں ساڑھے 32 ارب روپے کا اضافہ کیا ہے۔ یعنی ہر سال ریلوے کی آمدن میں لگ بھگ ساڑھے 6 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ سعد رفیق نے شیخ صاحب کو یہ بھی یاد دلایا ہے کہ جس ریلوے کو آپ نیب زدہ قرار دے رہے ہیں وہ پہلے کے گھپلے اور فراڈ ہیں۔ ہمارے دور کا ایک بھی ریفرنس نیب میں نہیں ہے، انہوں نے اس بات پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی وزارت کے خاتمے کے بعد چودہ 14 اگست کو آزادی ٹرین نہیں چلائی گئی، حالاں کہ آزادی ٹرین حب الوطنی کی علامت ہے۔ کاش! یہ ٹرین سیاسی اختلاف اور ذاتی تنازع کا شکار نہ ہو کیوں کہ آزادی ٹرین دور دراز علاقوں تک وطن سے پیار کی خوشبو پہنچاتی ہے۔ حب الوطنی ایک سانجھا جذبہ ہے جو لوگ اس جذبے سے محروم ہوں انہیں غدار کہا جاتا ہے سو، اس جذبے کو ماند نہیں پڑنا چاہیے۔
شیخ رشید صاحب! ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کے لیے فرسودہ بیانات، سیاست برائے مخالفت اور ملکی ادارے کی نجکاری کی روش اور سوچ کو ترک کرنا پڑے گا۔ ریلوے کی تباہ حالی کا رونا رو کر آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟۔ آپ جو الزامات ریلوے کی سابقہ انتظامیہ پر لگارہے ہیں کسی حد تک اس کا اطلاق تو آپ پر بھی ہوتا ہے۔ آپ بھی ان الزامات اور کوتاہیوں کی زد میں آتے ہیں۔ بہتر ہوگا آپ اپنے حصے کا چراغ جلائیے اور باقی معاملات اللہ پر چھوڑ دیجیے۔ ریلوے کے افسروں سے جھگڑنا آپ کی عادت ہے، پہل دور اقتدار میں آپ ایک افسر سے محض اس لیے ناراض ہوگئے تھے کہ وہ آپ کے منظور نظر ٹھیکے دار کو ٹھیکا دینے پر آمادہ نہ تھا کیوں کہ وہ بہت مہنگا تھا اور اب دوسری بار ریلوے کی وزارت ملنے کے بعد آپ پھر ایک افسر سے اُلجھ پڑے ہیں کیوں کہ اس نے یہ اعتراف کرنے کی جسارت کی تھی کہ ریلوے کی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ شنید ہے آپ کو یہ جرأت سخت ناگوار گزری اور آپ تہذیب و شائستگی کی ساری حدیں پار کر گئے۔ لگتا ہے شیخ صاحب خود کو پنڈی وال کے بجائے ’’پنڈی والے‘‘ سمجھنے لگے ہیں۔