اب تک تو حکومت سازی کا عمل مکمل نہیں ہوا تھا لیکن اب جب کہ 13 ویں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے حلف اٹھالیا ہے، پارلیمنٹ سے خطاب بھی کرلیا ہے تو حکومت سازی بھی مکمل ہوئی اور علوی صاحب کے بارے میں یہ کہنا بھی غلط ہوا کہ انہیں عمران خان نے ایسے رکھا ہوا تھا کہ تین میں نہ تیرہ میں، کم از کم اب وہ 13 ویں صدر ہیں۔ لیکن نئی حکومت کے حوالے سے ابھی بہت سی باتیں اس کے مخالفین کو پریشان کررہی ہیں بلکہ ایک بات سے تو خود عمران خان پریشان ہیں کہ وزیراعظم بننے کے بعد سے وہ مزار قائد اعظم پر فاتحہ پڑھنے نہیں گئے۔ وزیراعظم کی پریشانی یہ ہے کہ وہ مزار پر جاتے ہیں تو ناقدین پیچھے پڑ جاتے ہیں، اب نہیں جارہے تو بھی تنقید کی جارہی ہے، اب کوئی بتلائے کہ وزیراعظم کیا کریں۔ ویسے بھی انہیں ہر وقت جی ایچ کیو کے بلاوے کا خدشہ یا انتظار رہتا ہے۔ کبھی آئی ایس آئی والے بلالیتے ہیں اور کوئی بھی 8 گھنٹے سے کم نہیں لیتا۔ اس لیے وہ اسلام آباد سے بنی گالا کے سوا کوئی سفر نہیں کررہے اور یہ بھی دیکھنا ہے کہ ہیلی کاپٹر کراچی تک کا کتنے میں پڑے گا۔ اس کا تو خیر مسئلہ نہیں ہے، زیادہ مہنگا پڑا اور مہنگا ترین بھی پڑا تو اپنے پاس بھی ایک ترین ہے۔ کوئی راستہ نکال لے گا۔ لیکن مسائل تو اور بھی ہیں۔ ایک سوال یہ ہے کہ اب جب کہ نیا پاکستان بن چکا تو پھر مزار قائد پر حاضری کس حیثیت میں دی جائے گی۔ ہم اخبار والوں کے لیے بھی مسئلہ ہوگا، تصویر میں کیا کیپشن لگے گا، نئے پاکستان کے بانی پرانے پاکستان کے بانی کے مزار پر حاضری دے رہے ہیں۔ یہاں سجدہ نہیں کیا جاتا، اس پر زمانہ طالبعلمی کا ایک واقعہ یا ساتھیوں کی شرارت یاد آگئی۔ بھارتی صدر گیان ذیل سنگھ کی وزیر کا حلف لے رہے تھے وہ تصویر اخبار سے کاٹ کر شعبہ سیاسیات کے وال پیپر پر نصب کی اور کیپشن لگایا کہ بھارت کے صدر گیانی ذیل سنگھ مندرجہ ذیل سنگھ سے حلف لے رہے ہیں۔ اب مسئلہ بانیوں کا ہے، نیا پاکستان اور اس کا بانی حکمران ہے اس کی مرضی پاک پتن جاتے یا کراچی۔ اس میں بھی ایک مسئلہ ہے، پاک پتن میں موجودہ خاتون اول کے سابق مرد کو ناکے پر جس دم روکا گیا اس دم پنجاب کے آئی جی کلیم امام تھے۔ لیکن ان کا تبادلہ کراچی ہوگیا ہے۔ کراچی میں کوئی ایسا ناکہ تو نہیں جس پر روکا جاسکے۔ ہیلی کاپٹر براہ راست مزار کے احاطے میں اتر سکتا ہے۔ البتہ پاکپتن جانے کا راستہ صاف ہے، شکریہ خاور مانیکا۔۔۔
کچھ بیان ڈیم کا بھی ہوجائے۔ نہیں ہمیں ڈیم کے بارے میں تو زیادہ یقین نہیں ہے ہمارے ایک دوست نے کہا کہ سارا ملک عطیات دے رہا ہے تم بھی دس روپے تو دے دو۔ ہم نے کہا کہ حکومت اعتماد قائم کردے دس ہزار دے دیں گے۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ اس کا مطلب ہے تم ڈیم کے دشمن ہو۔ عطیہ نہیں دو گے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا وہی مطلب ہے کہ جب شمیم آرا جوان تھیں اور ہر کوئی انہیں شادی کی پیشکش کرتا پھرتا تھا تو اس نے آسان حل نکالا۔ ایک روز اخبار نویسوں کو بلایا اور کہا کہ میں اس سے شادی کروں گی جو کشمیر آزاد کرائے گا۔ لیجیے وہ دن اور آج کا دن کشمیر آزاد نہیں ہوا۔ یا تو شمیم آرا کو معلوم تھا کہ ہمارے حکمران کشمیر آزاد نہیں ہونے دیں گے اس لیے یہ شرط رکھی تھی تا کہ پیشکش کرنے والوں سے جان چھوٹ جائے۔ یا پھر کوئی شمیم آرا سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ تو ہمارا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ڈیم نہیں بنے گا۔ ہماری دعا ہے کہ ڈیم ضرور بنے لیکن چندے کے لیے حکومت کے اعتماد کی شرط ہے۔ ہمارے بعض ساتھی لکھ رہے ہیں کہ 5 سال میں تو ڈیم تک بھاری مشینری لے جانے والی سڑک بنے گی۔۔۔ تو بس۔۔۔ بن گیا ڈیم۔ اس لیے کہ اس سڑک کے بنتے ہی ڈیم ہاؤسنگ اسکیم بنے گی وہاں ہزاروں گز پر ایک عمارت بنائی جائے گی جس کا نام ’’جھونپڑی‘‘ رکھا جائے گا اور یوں ڈیم ہاؤسنگ اسکیم کی جھونپڑ پٹی آباد ہوجائے گی۔ سنا ہے ڈیم پر انسان رہیں گے، بحریہ ٹاؤن سے زیادہ کامیاب ہوگی یہ اسکیم۔ جب اتنے لوگ چھونپڑیاں بنا کر رہیں گے تو ڈیم بنانا آسان ہوگا۔ ایک بات واضح ہوجانی چاہیے کہ جو لوگ ڈیم کے حوالے سے چندہ مہم کی مخالفت کررہے ہیں وہ پاکستان میں آبی ذخائر یا توانائی کے منصوبوں کے مخالف نہیں ہیں بلکہ اس کے طریقہ کار کے مخالف ہیں ان کو حکومت پر اعتماد نہیں ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ حکومت نئی ہے، بلکہ اس میں وہ سارے چہرے نظر آرہے ہیں جو سابقہ حکومتوں میں اور کرپٹ قرار دی گئی پارٹیوں میں رہے ہیں۔ پھر لوگ اپنے پیسے کس طرح ان کے حوالے کردیں۔ پھر بھی جذباتی اور مفاد پرست دونوں طرح کے لوگ چندے دے رہے ہیں۔ کچھ لوگ چندے کے بجائے مشورے دے رہے ہیں ان میں سے ایک مشورہ خورشید شاہ نے بھی دے ڈالا کہ چیف جسٹس اپنی سیاسی پارٹی بنا کر میدان میں آجائیں۔ اس پر بڑی لے دے ہوئی ہے لیکن یہ بھی ناقد ہیں۔ اور ناقدین کا کیا کریں وہ کسی کو چین نہیں لینے دیتے۔ عمران خان کے 100 دن کے پروگرام کو تو 25 جولائی کی رات 12 بجے سے گننا شروع کردیا تھا۔ اسی لیے ہمارا عمران خان صاحب کے لیے مشورہ ہے کہ ناقدین کی فکر چھوڑیں خود فیصلہ کریں کہ پہلے مزار قائد جانا ہے یا پاکپتن، یا پھر مزاروں پر جانے سے ہی تائب ہوجائیں یہ ناقد تو پھر بھی نہیں چھوڑیں گے۔