ہر سیاست دان اور ہر پارٹی کا ایک نفس امارہ ہوتا ہے۔ عمران خان اور ان کی جماعت کا نفس امارہ اطلاعات و نشریات کے وفاقی وزیر فواد چودھری ہیں۔ صوفیا نے نفس امارہ کی تشریح یہ کی ہے کہ وہ تاریکی میں ڈوبا ہوا نفس ہے۔ اسے نیک و بد کی تمیز نہیں ہوتی۔ ہوتی بھی ہے تو اس کی نوعیت عارضی ہوتی ہے۔ ایک لمحے کے لیے اس نفس کو احساس ہوتا ہے کہ وہ گمراہی میں مبتلا ہے۔ جہل میں لتھڑا ہوا ہے مگر دوسرے ہی لمحے اس کا یہ احساس فنا ہوجاتا ہے اور ہر طرف تاریکی کا راج قائم ہوجاتا ہے۔ کہیں پڑھا ہے کہ نفس امارہ اپنے موٹاپے سے بھی پہچانا جاتا ہے۔
فواد چودھری نے ڈاکٹر عاطف میاں کی وکالت اس شدومد سے کی تھی جیسے ڈاکٹر عاطف میاں قوم کی تقدیر ہوں مگر فواد چودھری کو 48 گھنٹوں میں ڈاکٹر عاطف میاں سے متعلق اپنے تھوکے ہوئے کو چاٹنا پڑ گیا۔ لیکن اس سے چودھری صاحب کی ’’پیشہ ورانہ مہارت‘‘ میں رتی برابر بھی فرق واقع نہیں ہوا۔ بدقسمتی سے فواد چودھری صرف ایک قادیانی کی پشت پناہی کرکے نہیں رہ گئے بلکہ انہوں نے ایک بیان میں کئی اور گل کھلائے ہیں۔
روزنامہ جسارت کی 6 ستمبر 2018ء کی اشاعت میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق اطلاعات و نشریات کے وفاقی وزیر نے فرمایا کہ ہم نے دو کروڑ ووٹ لیے ہیں اس لیے کوئی ہمیں نہ بتائے کہ اسلام کیا ہے؟ انہوں نے مزید فرمایا کہ ہمیں وہ لوگ ڈکٹیٹ کرنا چاہتے ہیں جن کو صرف دس لاکھ ووٹ ملے یا جن کی قومی اسمبلی میں ایک نشست بھی نہیں ہے۔
فواد چودھری کے اس بیان کو دیکھا جائے تو فواد چودھری نے دو کروڑ ووٹوں کو علم و شعور کا ہم معنی بنادیا ہے حالاں کہ ووٹوں کی تعداد کا علم و شعور سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اقبال نے کہا ہے جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتےیہ اقبال کا اپنا خیال نہیں ہے بلکہ یہ خیال مغرب کے ایک مفکر کے خیال کا عکس ہے۔ اس خیال کا مطلب یہ ہے کہ جمہوریت معیاری نہیں مقداری نظام ہے۔ یعنی جمہوریت Qualitative بندوبست نہیں بلکہ Quantitative بندوبست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں انسانوں کو تولا نہیں جاتا بلکہ گنا جاتا ہے۔ امام غزالی ہماری تہذیب کو Define کرنے والی شخصیت ہیں مگر وہ ہمارے دور میں زندہ ہوتے تو ان کا بھی ایک ووٹ ہوتا اور فواد چودھری کا بھی۔ اگر خدانخواستہ امام غزالی کا تعلق ایسی کسی جماعت سے ہوتا جس کو انتخابات میں صرف 10 لاکھ ووٹ ملے ہوتے اور وہ پی ٹی آئی کی قادیانیوں سے محبت پر تنقید کرتے تو فواد چودھری امام غزالی کے بارے میں بھی یہی فرماتے کہ ہم پر ایک ایسا شخص اعتراض کررہا ہے جس کی جماعت نے انتخابات میں 10 لاکھ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ فواد چودھری اپنے دو کروڑ ووٹوں پر اترا رہے ہیں۔ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اسلام دشمن اور مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی کو گزشتہ انتخابات میں 16 کروڑ سے زیادہ پاپولر ووٹ ملے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھی اسلام اور امت مسلمہ کے دشمن ہیں مگر انہیں بھی گزشتہ انتخابات میں 6 کروڑ سے زیادہ پاپولر ووٹ ملے تھے۔ اس اعتبار سے مودی اور ٹرمپ کی آرا اور تناظر پر بھی کسی کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔ مگر مودی اور ٹرمپ دونوں پر سنگین الزامات عاید کیے جارہے ہیں۔ مودی کے بارے میں خود بھارت کے دانش ور کہہ رہے ہیں کہ وہ بھارت کی روح اور جمہوریت دونوں کے دشمن ہیں۔ امریکا کے مایہ ناز صحافی باب ووڈ ورڈ نے اپنی کتاب Fear میں ٹرمپ کو امریکا کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ اور ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس کو ’’پاگل خانہ‘‘ قرار دیا ہے۔ اتفاق سے نریندر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ پر سنگین الزامات عاید کرنے والوں کو تو ایک ووٹ بھی نہیں ملا اس لیے کہ یہ لوگ کبھی انتخابات میں کھڑے ہی نہیں ہوئے۔ شاید فواد چودھری نے فرانس کے ممتاز ادیب اور فلسفی ژاں پال سارتر کا نام سنا ہو۔ سارتر فرانس کے الجزائر پر قبضے کے خلاف تھا۔ اس نے اس قبضے کے خاتمے کے لیے زبردست مہم چلائی جو فرانس کے کالجوں اور جامعات کے طلبہ میں بے انتہا مقبول ہوئی۔ اس صورتِ حال میں فرانس کے کئی لوگوں نے فرانس کے حکمران جنرل ڈیگال سے کہا کہ ساتر ’’غدار‘‘ ہے۔ چناں چہ اسے جیل میں ڈال دینا چاہیے۔ ڈیگال ایک ’’آمر‘‘ تھا مگر اس کے باوجود اس نے کہا سارتر ’’روح فرانس‘‘ ہے۔ اس لیے اسے جیل میں نہیں ڈالا جاسکتا۔ عمران خان کے نفس امارہ فواد چودھری اس وقت فرانس میں ہوتے تو سارتر سے کہتے تُونے تو انتخابات میں ایک ووٹ بھی حاصل نہیں کیا ہم نے انتخابات میں دو کروڑ ووٹ حاصل کیے ہیں اس لیے تُو ہمیں Dictate نہیں کرسکتا۔ فواد چودھری کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ فرانس کے حکمرانوں کو بالآخر سارتر کی بات ماننا پڑی اور فرانس نے 10 لاکھ سے زیادہ الجزائریوں کو قتل کرنے کے بعد سہی الجزائر سے اپنی فوج واپس بلالی۔ فواد چودھری کے لیے ووٹ اتنے ہی اہم ہیں تو ان کے رہنما عمران خان اور خود فواد چودھری کو میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے پاؤں دھو دھو کر پینے چاہئیں، اس لیے کہ ان کی جماعت نے حالیہ انتخابات میں ایک کروڑ 28 لاکھ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے مرکز اور سندھ میں اپنی سیٹیں اور ووٹوں دونوں میں اضافہ کیا ہے۔ اس لیے عمران خان اینڈ کمپنی کو چاہیے کہ وہ آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کا ذکر ادب و احترام سے کیا کرے۔
فواد چودھری کے بیان کو دیکھا جائے تو اس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ جس پارٹی کو 2 کروڑ ووٹ مل جاتے ہیں اسے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ اسلام کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ مودی کو 16 کروڑ ووٹ حاصل کرنے کے باوجود یہ معلوم نہیں کہ ہندوازم کیا ہے؟ ٹرمپ کو 6 کروڑ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے باوجود عیسائیت کی روح کا شعور نہیں۔ ٹھیک اسی طرح پونے دو کروڑ حاصل حاصل کرنے والے عمران خان اور ان کے نفس امارہ کو اس بات کی ہوا بھی نہیں لگی کہ اسلام کیا ہے۔ عمران خان اور ان کے نفس امارہ کو اسلام کے معنی معلوم ہوتے تو وہ اسلام اور امت مسلمہ کے دشمن ایک قادیانی کو سینے سے لگانے کی جرأت نہیں کرسکتے تھے۔ عمران خان کی سیاست کی عمر اب 22 سال ہوچکی ہے۔ اس طویل عرصے کے غالب حصے میں عمران خان صرف ’’ایک فرد‘‘ تھے۔ ان کے پاس قومی کیا صوبائی اسمبلی کی ایک نشست بھی نہیں تھی۔ بلکہ ان کے پاس ایک منتخب کونسلر بھی نہیں تھا۔ اس کے باوجود عمران خان ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں کو Dictate کرتے تھے۔ اس صورتِ حال کے باوجود لوگوں کی ایک بڑی تعداد عمران خان کی اس تنقید سے متاثر ہوئی جو وہ ملک کی بڑی جماعتوں اور ملکی نظام پر کرتے تھے۔ اس اثر پزیری کا نتیجہ یہ ہوا کہ عمران خان کو 2013ء کے انتخابات میں نشستیں تو کم ملیں مگر ووٹ 70 لاکھ سے زیادہ ملے۔ چناں چہ ممکن ہے کہ آج جن جماعتوں کے پاس قومی اسمبلی میں ایک نشست ہے یا ایک نشست بھی نہیں وہ عمران خان کی جماعت کی طرح حکمرانوں پر تنقید کرکے آئندہ انتخابات میں مقبول ہوجائیں۔ فواد چودھری نے عاطف میاں قادیانی کے تناظر میں یہ بھی فرمایا کہ پاکستان اسی لیے بنا تھا کہ متحدہ ہندوستان میں اقلیتوں پر ظلم ہو رہے تھے۔ انہوں نے سوال کیا کہ جس بنیاد پر ہم نے خود آزادی حاصل کی کیا اسی بنیاد کو پاکستان میں رد کردیا جائے۔ نفس مطمنہ کو ایک ایک بات سوچ سمجھ کر کہنا پڑتی ہے مگر نفس امارہ کا علم و فہم سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا، اس کے منہ میں جو آتا ہے کہہ گزرتا ہے۔ فواد چودھری تو ویسے بھی عمران خان کے نفس امارہ ہیں۔ چناں چہ وہ جو کہہ دیں کم ہے۔ ویسے فواد چودھری کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ قائد اعظم اس بات کا بہت بُرا مانتے تھے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ’’اقلیت‘‘ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے صاف کہا ہے کہ انگریز اور ہندو مسلمانوں کو اقلیت نہ کہیں اس لیے کہ مسلمان اقلیت نہیں ’’ایک قوم‘‘ ہیں۔ چناں چہ فواد چودھری کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان اقلیت کی بنیاد پر نہیں ’’قوم‘‘ کی بنیاد پر بنا۔ دوسری اور زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس ’’قوم‘‘ کا تشخص ’’اسلام‘‘ تھا۔ اگر قوم کا تشخص اسلام نہ ہوتا تو قوم ہندوؤں سے مختلف ہونے کا دعویٰ ہی نہیں کرسکتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قومیت کی مروجہ تعریف کی رو سے قوم مذہب سے نہیں نسل، زبان اور جغرافیے سے وجود میں آتی تھی۔ مگر مسلمانوں نے قوم کی اسی تعریف کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ انہوں نے کہا تو یہ کہا کہ ہمارا مذہب اور اس کے حوالے سے ہماری تہذیب اور تاریخ ہندوؤں سے الگ ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عمران خان اور ان کے نفس امارہ سے گزارش ہے کہ وہ پاکستان کی اقلیتوں کا موازنہ متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں سے نہ کریں۔ بلاشبہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو محفوظ و مامون ہونا چاہیے مگر بدقسمتی سے قادیانی تو مذہبی اقلیت بھی نہیں کہلا سکتے۔ اس لیے کہ وہ بنیادی طور پر اسلام اور مسلمانوں کے ’’غدار‘‘ ہیں اور غدار چاہے ایک ہو یا غداروں کی تعداد لاکھوں میں ہو ان کو بہرحال ملک و قوم پر مسلط نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ریاست کے غدار ریاست کے لیے قابل قبول اور قابل احترام نہیں ہوسکتے تو ریاست کو جنم دینے والے نظریے کے غدار قوم اور ریاست کے لیے کس طرح قابل قبول اور قابل احترام ہوسکتے ہیں؟۔