جنگ ستمبر کے بعد کیا ہوا؟

377

ایک محترم دوست نے جنگ ستمبر 1965ء سے متعلق ہمارے کالم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ ستمبر کی یادیں تو آپ نے تازہ کردیں لیکن اس جنگ کے بعد کیا ہوا اور معاہدہ تاشقند کن حالات میں طے پایا۔ اس پر بھی آپ کو روشنی ڈالنی چاہیے۔ چناں چہ یہ تحریر اسی سوال کے جواب میں سپرد قلم کی گئی ہے۔ پاکستانی قوم نے اپنی دلیر افواج کے شانہ بشانہ یہ سترہ روزہ جنگ جس جوش و جذبے سے لڑی اس نے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو خاک چاٹنے پر مجبور کردیا تھا، اس کے اعصاب جواب دے گئے تھے وہ جنگ بندی کی اپیل لے کر خود اقوام متحدہ میں گیا اور اس کی درخواست پر دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بندی عمل میں آئی۔ لیکن افسوس پاکستان نے محاذ جنگ پر جو کامیابی حاصل کی تھی وہ تاشقند میں مذاکرات کی میز پر برقرار نہ رکھ سکا اور بات چیت میں بھارت سے مات کھا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جنگ ستمبر کے نتائج دیکھ کر عالمی طاقتیں اس اندیشے میں مبتلا ہوگئی تھیں کہ کہیں پاکستان مسلسل مہم جوئی کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کو بھارت سے واگزار نہ کرالے اور ان کے لیے جنوبی ایشیا میں محاذ آرائی کا شغل باقی نہ رہے۔ چناں چہ جنگ کے بعد پاکستان کو گھیرنے کی کوشش کی گئی۔ ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ جب پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدوں پر کشیدگی جاری تھی اور ابھی جنگ شروع نہیں ہوئی تھی تو روس (اس وقت سوویت یونین) کے صدر کوسیجن نے پاکستان کے صدر جنرل ایوب خان اور بھارت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری کو 4 ستمبر 1965ء کو ایک خط کے ذریعے مسئلہ کشمیر سمیت اپنے تمام تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی دعوت دی تھی اور اس سلسلے میں دونوں ملکوں کی میزبانی کرنے کی پیش کش کی تھی۔ پاکستان نے اس پیش کش پر مثبت ردعمل ظاہر کیا تھا۔ لیکن 6 ستمبر کو بھارت نے پاکستان پر حملہ کرکے سارا منظرنامہ ہی بدل دیا۔ جنگ ختم ہوئی تو روسی صدر نے پھر اپنی پیش کش کو دہرایا اور دونوں ملکوں کے لیڈروں کو تاشقند میں مذاکرات کی دعوت دی۔ اب کی دفعہ یہ دعوت تنہا روس کی طرف سے نہیں تھی بلکہ درپردہ اسے امریکا اور برطانیہ کی تائید بھی حاصل تھی۔ ثبوت اس کا یہ ہے کہ صدر جنرل ایوب کے تاشقند روانہ ہونے سے ایک روز قبل 3 جنوری 1966ء کو امریکی صدر جانسن کے نمائندہ خصوصی ایورل پیری مین نے صدر ایوب سے پشاور میں ملاقات کی۔ اس ملاقات میں امریکی سفیر بھی موجود تھے۔ ملاقات میں مجوزہ تاشقند مذاکرات زیر غور آئے۔ برطانوی ہائی کمشنر بھی اسی روز خصوصی طیارے سے پشاور پہنچے اور صدر ایوب سے تاشقند مذاکرات کے حوالے سے بات چیت کی۔
روس ابتدا ہی سے مسئلہ کشمیر پر بھارت کے موقف کا حامی تھا وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر پر پاکستانی قرار داد کو ویٹو کرچکا تھا اس لیے اس سے کسی خیر کی توقع نہ تھی۔ رہے امریکا اور برطانیہ تو اپنے نظریاتی حریف روس کے ساتھ ان کا اتفاق بھی پاکستان کے خلاف عالمی سازش کی نشاندہی کررہا تھا لیکن صدر جنرل ایوب خان نے تاشقند جانے سے پہلے قومی رہنماؤں کو اعتماد میں لینے کی کوئی زحمت نہیں کی وہ جنگ ختم ہونے کے بعد پھر اپنی آمرانہ روش پر اُتر آئے تھے اور قومی سطح پر اتحاد و یکجہتی کی جو فضا قائم ہوئی تھی وہ بُری طرح مجروح ہورہی تھی۔ مولانا مودودیؒ نے اس موقع پر مظفر آباد آزاد کشمیر میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے صدر ایوب کو مشورہ دیا کہ وہ تاشقند جانے کا ارادہ ترک کردیں اور کسی عالمی سازش کا حصہ نہ بنیں۔ آپ نے فرمایا ’’اخلاقاً کسی دعوت کو مسترد کرنا تو اچھا نہیں لیکن اگر دعوت زہریلے پلاؤ کی ہو تو اسے قبول کرنا مسنون نہیں ہے‘‘۔ دیگر قومی رہنما بھی صدر ایوب کے تاشقند جانے کے خلاف تھے سب کا بنیادی موقف یہ تھا کہ صدر ایوب کو تاشقند جانے سے پہلے قومی سطح پر مشاورت کرنی چاہیے اور یہ طے کرنا چاہیے کہ وہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف سے سرمو انحراف نہیں کریں گے اور بھارت و روس کے کسی دباؤ میں نہیں آئیں گے۔ خواہ اس کے نتیجے میں مذاکرات ناکام ہی کیوں نہ ہوجائیں، لیکن صدر ایوب نے مشاورت تو کجا اس موضوع پر کوئی بیان دینا بھی
ضروری نہ سمجھا اور 4 جنوری 1966ء کو اپنے وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور دیگر معاونین کے ہمراہ تاشقند جا پہنچے۔ واضح رہے کہ 6 ستمبر 1965ء کو خود بھارت نے جنگ شروع کی تھی پھر وہی جنگ بندی کی اپیل لے کر سلامتی کونسل میں گیا تھا۔ 23 ستمبر 1965ء کو جنگ بند ہوئی تو روس نے دونوں ملکوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے سفارتی کوششیں شروع کردیں۔ یہ کوششیں کم و بیش تین ماہ تک جاری رہیں۔ بالآخر اگلے سال (1966ء) کے اوائل میں تاشقند مذاکرات کا انعقاد ممکن ہوسکا۔ دوسری طرف بھارت میں ممکنہ تاشقند مذاکرات پر پارلیمنٹ میں بھی سیاسی مباحثہ جاری تھا اور بیشتر ارکان کی رائے یہ تھی کہ وزیراعظم شاستری کو مسئلہ کشمیر پر بات کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیا جاسکتا۔ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اس پر کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے البتہ فوجوں کی سرحدوں پر واپسی اور معاہدہ امن کو مذاکرات کا موضوع بنایا جاسکتا ہے۔ چناں چہ بھارتی وزیراعظم نے تاشقند روانہ ہونے سے پہلے یہ بیان دینا ضروری سمجھا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اس پر کوئی بات نہیں ہوگی۔ تاہم میری کوشش ہوگی کہ پاکستان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کرکے خطے میں امن کو یقینی بنایا جائے۔ کیا صدر ایوب بھارت کے اس موقف سے بے خبر تھے، کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ تاشقند میں مسئلہ کشمیر پر کوئی بات نہیں ہوگی؟۔ انہیں سب معلوم تھا لیکن وہ بُری طرح روس، امریکا اور برطانیہ کے دباؤ میں تھے، ان عالمی طاقتوں کو مسئلہ کشمیر کے حل سے کوئی دلچسپی نہ تھی وہ بس آئندہ پاکستان کو مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے مہم جوئی سے باز رکھنا چاہتی تھیں اور اس کے لیے ضروری تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ معاہدہ امن یا جنگ نہ کرنے کا کوئی سمجھوتا کرلے۔ یہی خواہش بھارت کی بھی تھی۔
تاشقند مذاکرات 4 جنوری (1966ء) سے 9 جنوری تک جاری رہے۔ بظاہر یہی معلوم ہورہا تھا کہ دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور مذاکرات کی کامیابی کا امکان نہیں ہے۔ پاکستان کا اس پر اصرار تھا کہ جب تک مسئلہ کشمیر کا قابل قبول حل نہیں نکالا جاتا وہ بھارت کے ساتھ معاہدہ امن کی پوزیشن میں نہیں ہے جب کہ بھارتی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ انہیں مسئلہ کشمیر پر بات چیت کا اختیار ہی نہیں دیا گیا وہ تو پاکستان سے امن کی بھیک مانگنے آئے ہیں۔ یہ تکرار چار دن چلتی رہی، آخر پانچویں دن روسی صدر کوسیجن صدر ایوب سے علیحدگی میں ملے، بعد میں بھارتی وزیراعظم شاستری نے بھی ان سے الگ ملاقات کی اور دونوں ملکوں کے درمیان ’’معاہدہ تاشقند‘‘ طے پا گیا۔ سنایا جاتا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نے صدر ایوب سے الگ ملاقات میں ان کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا تھا ’’مہاراج آپ پاکستان کے بادشاہ اور مختار کُل ہیں آپ مجھے امن کی بھیک دے سکتے ہیں لیکن میرے پاس آپ کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے، میری قوم نے میرے ہاتھ باندھ رکھے ہیں، دیا کیجیے اور امن کی بھیک میری جھولی میں ڈال دیجیے‘‘ اور صدر ایوب نے ’’شاہانہ تمکنت‘‘ کے ساتھ اس کی عاجزانہ درخواست قبول کرلی۔ ’’معاہدہ تاشقند‘‘ میں پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو زیر بحث لائے بغیر بھارت کے ساتھ امن سے رہنا قبول کرلیا، ساڑھے چار فٹ کے شاستری نے پاکستان کے سوا چھ فٹ کے صدر جنرل ایوب خان کو اس طرح اڑنگا مارا کہ وہ چاروں شانے چت ہوگئے۔ لال بہادر شاستری کی یہ وہ کامیابی تھی جو خود اس سے برداشت نہ ہوسکی، اس پر شادی مرگ کی کیفیت طاری ہوگئی اور وہ اسی رات تاشقند میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگیا اور ایوب کو اس ناکامی سے دوچار کرنے میں ان کے وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو کا بھی ہاتھ تھا جو بھارت سے کوئی نہ کوئی سمجھوتا ضرور کرنا چاہتے تھے لیکن جب صدر ایوب نے تاشقند سے واپسی پر انہیں کابینہ سے نکال باہر کیا تو وہ مدتوں صدر ایوب کے خلاف معاہدہ تاشقند کو بیچتے رہے۔ راقم اس جلسہ عام میں موجود تھا جس میں بھٹو نے اعلان کیا تھا کہ وہ آج معاہدہ تاشقند کے راز سے پردہ اٹھائیں گے۔ باغ بیرون موچی دروازہ لاہور میں انہیں سننے کے لیے ایک مخلوق امڈ آئی تھی لیکن وہ اپنی تقریر میں تاشقند کی پٹاری سے کوئی سانپ نہ برآمد کرسکے۔
(اس کالم کے دستاویزی حقائق ممتاز احمد کی کتاب ’’مسئلہ کشمیر‘‘ سے لیے گئے ہیں جو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی طرف سے نظرثانی کے بعد شائع کی گئی تھی)۔