آمدنی کے لیے عوام پر بوجھ کیوں ؟

421

وفاقی حکومت نے قومی خزانے کو مستحکم کرنے کے لیے ہر ذریعہ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس مقصد کے لیے وہ گورنر ہاؤسز، وزرائے اعلیٰ ہاؤسز اور وزیر اعظم ہاؤس کو بھی استعمال کریں گے اور نجکاری بھی کریں گے۔ لیکن ایک خبر بڑی چونکا دینے والی ہے جس سے پی ٹی آئی کو سیاسی طور پر نقصان ہوگا۔ وہ خبر یہ ہے کہ سابق حکومت نے انکم ٹیکس سے استثنیٰ کی جوحد مقرر کی تھی اس کے بارے میں ایف بی آر نے نوٹس جاری کردیا ہے کہ تنخواہ دار طبقے کو سابق حکومت کی جانب سے دی گئی رعایت ختم کردی گئی ہے۔ سابق حکومت نے 12لاکھ روپے سالانہ آمدنی تک کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا تھا۔ یعنی ایک لاکھ روپے ماہانہ آمدنی والے کو ٹیکس سے استثنا حاصل ہواتھا۔ اب 4لاکھ روپے سے 8 لاکھ تک سالانہ آمدنی والے کو ایک ہزار روپے اور 12لاکھ تک آمدنی والے کو 2ہزار روپے سالانہ ٹیکس دینا ہوگا اس سے زیادہ آمدنی والوں کو 5فیصد ٹیکس دینا ہوگا۔ اس حوالے سے ایک ابہام بھی ہے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد بریفنگ میں حکومت کے ترجمان وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا کہ حکومت نے ٹیکس میں اضافے کا فیصلہ ابھی نہیں کیا ہے یہ کام پارلیمنٹ کرے گی جبکہ دوسری جانب خبر ایجنسیوں سے ایف بی آر کے نوٹیفکیشن کی خبر ہے۔ نوٹیفکیشن کا مطلب فیصلے کا نفاذ ہے۔ اگر نوٹیفکیشن درست ہے تو وزیر اطلاعات غلط اطلاع دے رہے ہیں اور اگر وہ درست فرما رہے ہیں تو پھر ایف بی آر کے نوٹیفکیشن کی خبر کا کیا کریں، بہرحال اس حوالے سے ابہام دور کرنا حکومت کا کام ہے کیوں کہ فنانس ایکٹ ہو یا پھر ایک روپے کا ٹیکس لگانے کا فیصلہ یہ تمام فیصلے پارلیمنٹ کے ذریعے ہی ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ وفاقی کابینہ نے ٹیکس میں رعایت ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور فنانس ایکٹ میں ترمیم پارلیمنٹ سے کرائی جائے گی۔بہرحال فیصلہ حکومت کا یہی ہے کہ ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے۔ اس فیصلے سے حکومت کو کیا فائدہ اورنقصان ہوگا اس کا جائزہ لینا حکومت کا کام ہے لیکن یہ صرف حکومت کا مسئلہ نہیں کیوں کہ ڈیڑھ دو لاکھ لوگ جو 4لاکھ روپے سالانہ آمدنی رکھتے ہیں یعنی تنخواہ پاتے ہیں ان سے ایک ایک ہزار روپے ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ اس سے قومی خزانے کو جتنا فائدہ ہوگا اس کے مقابلے میں معاشرے میں بے چینی میں اضافہ زیادہ ہوگا کیوں کہ 33ہزار روپے کے لگ بھگ تنخواہ میں سے 80یا 85 روپے ٹیکس ماہانہ کٹوانا کوئی مشکل کام نہیں لیکن بلاوجہ یہ تاثر ذہنوں پر رہے گا کہ ہمارے اوپر حکومت نے اضافی بوجھ لاد دیا ہے۔ ہاں جو 12لاکھ سے 24لاکھ روپے تنخواہ لے رہے ہیں ان کے لیے سالانہ 60ہزار یا ماہانہ 5ہزار روپے ٹیکس دینا مشکل نہیں لیکن جو رعایت دی جائے جاچکی تھی وہ واپس لینا بہرحال زیادتی ہے۔ یہ تجویز جب پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی تو اس وقت اس کے بارے میں مزید چھپی ہوئی چیزیں سامنے آئیں گی۔ لیکن ایک سوال یہ ہے کہ کیا آمدنی بڑھانے کے لیے عوام پر بوجھ ڈالنا ضروری ہے ؟ ہمارے سامنے اس حوالے سے بڑی مثالیں اپنے ملک کی موجود ہیں۔عبدالستا ر افغانی دو مرتبہ کراچی کے میئر رہے اور کراچی کا بجٹ چند لاکھ سے کروڑوں پھر اربوں روپے تک پہنچا تقریباً 8برس کے عرصے میں ایک روپیہ بھی ٹیکس نہیں لگایا بلکہ شہر کی آمدنی میں اضافہ کیا اور شہر کو ترقی بھی دی۔ اداروں میں بھی اضافہ اور کراچی واٹر اینڈ کراچی بورڈ جہاں جیسا ادارہ ان ہی کے دور میں قائم ہوا۔ اگر وہ اور ان کی ٹیم چاہتی جیسا کہ ان کو بیورو کریٹس کی جانب سے مشورے بھی دیے گئے تو وہ ٹیکس لگا بھی سکتے تھے اور معمولی اضافے بھی کرسکتے تھے۔ لیکن انہوں نے آمدنی کے ذرائع اوروسائل میں اضافہ کیا چوریاں روکیں اور نگرانی کی یہی کام پہلی سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی نے نعمت اللہ خان صاحب کی سرکردگی میں کیا انہوں نے بھی پیٹرول، آکٹرائے، کسٹمز، ٹھیکوں میں بدعنوانی وغیرہ کو روکا اور سٹی گورنمنٹ کو اربوں روپے دلوائے۔ مرکز سے فنڈ لے کر دیا اسی طرح کے پی کے جب سراج الحق وزیر خزانہ تھے اور بعد میں جماعت اسلامی کے بلدیات کے وزیر تھے۔ عوام پر بوجھ ڈالے بغیر خدمت کاطریقہ اختیار کیا گیا۔ یہ کام تو آسان ہے اور بیورو کریسی اور پرانے سیاست دانوں کی روش یہی ہے۔ ہر حکومت کو ٹیکس مشین بنا کر رکھ دیا جاتا ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے بھی حکومت کو توجہ دلائی ہے کہ وہ ٹیکس مشین بننے کے بجائے لوٹی ہوئی دولت بیرون ملک سے واپس لانے کے وعدوں کو پورا کرے۔ اسی طرح بیرون ملک سے رقم واپس لانے کے لیے ماہرین کی خدمات لینے کا جو فیصلہ کیا گیا ہے اس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ جو ماہرین آج کل دستیاب ہیں زیادہ تر تو اسی قسم کے ہیں جو ملک سے دولت ٹونے کے بعد باہر بھجوانے کے مشورے اور طریقے بتاتے ہیں ۔ ان کو اس کا الٹا کام دیا جائے گا تو وہ کیسے کریں گے۔ خصوصاً ایسے حالات میں کہ حکومتی ٹیم میں آنے والے زیادہ تر لوگ وہی ہیں جو جنرل پرویز ، ق لیگ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں میں شامل رہے اسمبلیوں میں بھی الیکٹ ایبلز کی سیاست کے نتیجے میں ایسے ہی لوگ آگئے ہیں تو پھر وہ ایسا کیوں ہونے دیں گے بہرحال یہ حکومت کا امتحان ہے۔ اسے عوام پر اضافی بوجھ ڈالنے اور غیر مقبول فیصلے کرنے کے بجائے اپنی توجہ وسائل بڑھانے پر اور چوری روکنے پر مرکوز رکھنی چاہیے۔ کہنے اور سننے میں تو یہ بھی اچھا لگتا ہے کہ گورنر ہاؤسز اور وزیر اعظم ہاؤس کو میوزیم اور یونیورسٹی بنانے سے 115 کروڑ کی بچت اور آمدن بھی ہوگی اور یہ کہ سرکاری عمارتیں ہوٹل بنیں گی۔ یہ حساب کتاب کون بتا رہا ہے ان ماہرین کو بھی سامنے آنا چاہیے۔ ریڈ زون میں یونیورسٹی کیسے بنے گی کیا حقیقتاً ریڈ زون ختم کیا جارہا ہے۔ اور کیا یونیورسٹی اور میوزیم پر اخراجات نہیں ہوں گے۔ ابھی تو مالی ، باورچی، ڈرائیور، منیجر قسم کے لوگ بھرتی ہوئے ہیں میوزیم کے لیے تو تربیت یافتہ ٹیکنیکل لوگ بھرتی کرنے ہوں گے جن کی تنخواہیں اور مراعات زیادہ ہوں گی۔ ایک ماہر کی تنخواہ میں پورے گورنر ہاؤس کے عملے کی تنخواہ آجائے گی۔ لہٰذا ایسے فیصلے کرنے سے قبل مشورے ضرور کر لینے چاہییں۔