اقتدار نہ ضیافت!

256

عام تاثر یہی ہے کہ اگر وزیراعظم عمران خان نے دس ماہ کا عرصہ بخیر و عافیت گزار دیا تو پھر دس برس تک برسراقتدار رہنے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ مگر آثار و قرائن بتارہے ہیں کہ اقتدار کی ضافت عمران خان کو ہضم نہیں ہورہی ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عمران خان قوم کی اُمنگوں اور خواہشوں کی عملی تفسیر دکھائی دے رہے ہیں مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ کوئی بھی شخص تنہا حکومت نہیں چلا سکتا خواہ وہ کتنا ہی پُرخلوص کیوں نہ ہو۔ اس کی دیانت داری اور قوم سے محبت کا انحصار اس کے سنگی ساتھی اور درباریوں پر ہوتا ہے وہی اسے ہیرو بناتے ہیں وہی اسے زیرو کرتے ہیں۔ تو کیا۔۔۔ عمران خان کو ہیرو بنانے والے زیرو بنانا چاہتے ہیں اسی لیے انہوں نے پاکستان کو بنانا اسٹیٹ بنانے کا تہیہ کرلیا ہے۔ پہلے ایک رکن اسمبلی کے والد محترم کا چالان کرنے والے ٹریفک اہلکار کو اتنا ڈرایا دھمکایا گیا کہ وہ معافی مانگنے پر آمادہ ہوگیا پھر کراچی کے بھرے بازار میں ایک سرکاری ملازم پر تھپڑوں کی بارش کی گئی۔ یادش بخیر! پیپلز پارٹی کی ایک رہنما نے ایک سرکاری ملازم کو صڑف ایک تھپڑ مارا تھا، سزا کے طور پر نااہلیت کی تلوار چلادی گئی تھی مگر تحریک انصاف کے رکن اسمبلی پر 5 لاکھ کا جرمانہ عاید کرکے معاملہ رفع دفع کردیا گیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر تحریک انصاف کے ساتھ ہی کیوں ’’مٹی پاؤ‘‘ کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے اور اب خاتون اول کے مرد اول خاور مانیکا کا چالان کرنے پر ڈی پی او کا تبادلہ کردیا گیا اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان خان بزدار نے حکم دیا کہ خاور مانیکا کے ڈیرے پر جا کر معافی مانگو اور جب ڈی پی او نے معافی مانگنے سے انکار کیا تو اسے معطل کردیا گیا۔ کہتے ہیں معاملہ صرف بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑی چلانے کا تھا۔ سردار عثمان خان بزردار کو پنجاب کا وزیراعلیٰ کیوں بنایا گیا سبھی کی سمجھ میں آگیا ہے۔
تحریک انصاف کی حیثیت سے وزیراعظم عمران خان نے قوم کو سنہرے خواب اور سبز باغ دکھائے تھے۔ حالاں کہ قوم صرف کالا باغ دیکھنا چاہتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب چاروں صوبوں کی اتفاق رائے کے بغیر ایٹمی دھماکا ہوسکتا ہے تو کالا باغ ڈیم کیوں نہیں بنایا جاسکتا؟۔ وزیراعظم عمران خان برسراقتدار آنے سے قبل سیاسی سونامی کی پیش گوئی کیا کرتے تھے ان کی جدوجہد سے سیاسی سونامی تو آگیا مگر اپنے ساتھ مہنگائی کا سونامی بھی لے آیا، اگر ان کے سنگی ساتھی اور مشیر اسی روش پر گامزن رہے تو عمران خان کا چلنا مشکل ہوجائے گا۔ خدا جانے! کبھی کبھی یہ احساس کیوں ستانے لگتا ہے کہ عمران خان صاحب کو حکومت سے کوئی دلچسپی نہیں، وزیراعظم بننا ان کی انا کا مسئلہ تھا۔ اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں اور عمران خان کو اپنے خوابوں کی تعبیر سمجھنے والے زمیں بوس ہورہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے برسراقتدار آنے سے قبل قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایک کروڑ ملازمتیں دیں گے جب بھی اس ضمن میں ان سے بات کی جاتی کہ وہ کس طرح ایک کروڑ ملازمتیں فراہم کریں گے تو عمران خان ہنس کر کہا کرتے تھے کہ اگر قوم نے ان پر اعتبار کیا اور اللہ نے فضل کیا تو ایک کروڑ ملازمتیں ہی نہیں پچاس لاکھ گھر بھی بنوا کر بے گھروں کو چھت بھی فراہم کریں گے۔ اوپر والے کا فضل و کرم اور قوم کی محبت رنگ لائی عمران خان الیکشن میں سرخرو ہوئے اور وزارتِ عظمیٰ پر جلوہ افروز ہوگئے مگر یہ کیا ہے برسراقتدار آتے ہی ڈیلی ویجز پر کام کرنے والوں کو فارغ کرنے کا منصوبہ بنالیا ہے، ڈیلی ویجز پر کام کرنے والوں کی تعداد لاکھوں سے کم نہ ہوگی گویا لاکھوں خاندانوں کو بے روزگار کرنے کا تہیہ کرلیا گیا ہے۔ ستر ہزار افراد تو صحت کے شعبے اور یوٹیلیٹی اسٹور سے وابستہ ہیں۔ حکومت نے یوٹیلیٹی اسٹوروں کے لیے اشیائے ضروریات کی خریداری پر پابندی لگادی ہے۔ اس پس منظر میں اس خدشے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ حکومت سرکاری زمینوں پر رہائش پزیر خاندانوں کو چھت سے محروم کرنے کی منصوبہ بندی بھی کررہی ہوگی۔