الوداع حسن صہیب مراد

397

حادثاتی موت بھی شہادت کا درجہ رکھتی ہے‘ اللہ کے نزدیک یہ بھی درجہ ہے۔ جماعت اسلامی کے سابق نائب امیر خرم مراد (مرحوم) کے صاحب زادے اور شعبہ تعلیم کا ایک بہت بڑا نام‘ آئی ایل ایم اور یونیورسٹی آف مینجمنٹ اور ٹیکنالوجی کے بانی ڈاکٹر حسن صہیب مراد حادثاتی وفات کا شکار ہو کر درجہ شہادت پر فائز ہو گئے ہیں، ان کی گاڑی کو پیر کے روز خنجراب پاس کے قریب حادثہ پیش آیا جس میں وہ اللہ کو پیارے ہوئے ڈاکٹر حسن صہیب مراد کی موت کی خبر تعلیمی اور تہذیبی حلقوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور تاسف کا اظہار کیا گیا کہ عالمی شہرت کے حامل ماہر تعلیم دُنیا سے رخصت ہو کر بہت بڑا خلا چھوڑ گئے۔ ان کی خدمات کو بھلایا بھی نہیں جا سکتا ایسی ماہر اور مایہ ناز علمی شخصیت ہستی کا اُٹھ جانا بہت بڑا ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔
مرحوم حسن صہیب جماعت اسلامی کے نائب امیر انجینئر خرم مراد کی دلی مراد تھے، ان کے دادا کا تعلق سرگودھا سے تھا، جنہوں نے رسول پور (گجرات) سے سول انجینئرنگ کرنے کے بعد گوہر گنج بھوپال میں ملازمت اختیار کی خرم مراد بھی بھوپال میں پیدا ہوئے اور پاکستان بننے پر کراچی میں آباد ہوگئے۔ این ای ڈی (NED) سے سول انجینئرنگ کی ایسوسی ایٹڈ کنسلٹنٹ انجینئرز ACE میں ملازمت شروع کی کمپنی کی طرف سے ڈھاکا ٹرانسفر ہوئے اسی سال واپس پاکستان آئے اور انسٹی ٹیوٹ آف لیڈر شپ اینڈ مینجمنٹ لاہور کی بنیاد رکھی جو آج پاکستان میں نجی شعبے کے ممتاز ادارے یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی کی صورت میں ہزاروں نوجوانوں کو خوابوں سے آگے کامیابیوں کی ان گنت شاہراہوں پر گامزن کرچکی ہے۔ حسن صہیب مراد کی زندگی جدو جہد، محنت اور کامیابی کی رشک آمیز کہانی ہے۔ 22 اکتوبر 1959ء کو کراچی میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم ڈھاکا ہی میں ہوئی، لیکن گریجویشن کراچی (این ای ڈی یونیورسٹی) سے ہوئی ان سے پہلی ملاقات غالباً اسلامی جمعیت طلبہ کے کسی پروگرام میں 1980ء کے دوران ہوئی‘ نہایت دھیمے مزاج کے انسان تھے‘ نرم گفتگو کرتے‘ ہر کسی سے مسکراتے ہوئے ملتے تھے ان میں لیڈر شپ کوالٹی تھی‘ جن دنوں جمعیت میں تھے‘ وہ دن بہت ہی تلخ ہوا کرتے تھے ایک جانب ضیاء الحق حکومت اور دوسری جانب سندھ میں ان دنوں جئے سندھ‘ این ایس ایف‘ سپاف‘ جیسی طلبہ تنظیموں نے تعلیمی اداروں میں پرامن طلبہ کا ناک میں دم کیا ہوا تھا اس ماحول میں وہ خود اور اپنی جمعیت کو آگے بڑھانے میں کامیاب رہے‘ ان کے انتقال کی خبر پڑھی تو یقین نہیں آرہا تھا‘ ڈرتے ڈرتے سید بلال کو فون کیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ یہ سانحہ ہوچکا ہے۔ بس پھر کیا تھا حسن صہیب مراد کے ساتھ جمعیت کے زمانے میں گزرے ہوئے لمحات کی ایک پوری فلم دماغ میں گھوم گئی۔ اجتماع ارکان ہو‘ یا تربیت گاہ‘ تربیت گاہ کے دوران اسٹڈی سرکل ہو یا ورکشاپ ہر لمحے اور ہر پروگرام میں ہم انہیں متحرک دیکھتے۔ حس مزاح بھی بہت خوب تھی‘ دلائل سے گفتگو‘ نرم مزاجی‘ مسکراہٹ اور علمی بات ان کی پہچان تھی ان سے بہت کم گفتگو کا موقع ملا لیکن جتنی بار بھی ملاقات ہوئی‘ ہر بار ایک نیا تاثر چھوڑا‘ پاکستان کے حالات‘ یہاں تعلیمی شعبے کی زبوں حالی پر وہ بہت پریشان ہوا کرتے تھے۔ جمعیت سے فراغت کے بعد 1990ء میں انسٹی ٹیوٹ آف لیڈر شپ اینڈ مینجمنٹ قائم کیا مختصر عرصے میں بین الاقوامی سطح کی ایک یونیورسٹی کو تن تنہا کھڑا کردیا بے شمار لوگوں کا مستقبل بنانے میں ان کی ذاتی دلچسپی اور رہنمائی کا دخل رہا ہر طرح کے تکلفات اور رسمی روایت کو چھوڑ کر ہر شخص سے بڑے تپاک سے ملتے ان کی ساری زندگی جستجو میں گزری‘ ان کی ہمیشہ خواہش رہی کہ نام کے بجائے انہیں کام سے پہچانا جائے۔ انسٹی ٹیوٹ آف لیڈر شپ اینڈ مینجمنٹ اب ان کی جدوجہد کا عملی ثبوت ہے۔
9ستمبر کو ڈاکٹر حسن اپنے بیٹے ابراہیم کے ساتھ پاک فوج کے ادارے (FCNA) کی سالانہ تقاریب اور ان کے بعض تعلیمی اداروں کے وزٹ کے لیے گلگت پہنچے۔ 10ستمبر کو چائنا بارڈر کے قریب ایک پروگرام سے فارغ ہو کر واپس جا رہے تھے گاڑی ان کا بیٹا ابراہیم چلا رہا تھا اور ساتھ فرنٹ سیٹ پر (FCNA) کے سابق کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید الحسن تھے، جب کہ ڈاکٹر حسن صہیب اور ان کے ساتھ فوج کے ایک کپتان پچھلی سیٹ پر تھے خنجراب کے قریب تھے تو گاڑی سٹرک کے ساتھ چٹان سے ٹکرا کر ملحقہ پتھروں والی زمین پر الٹتی چلی گئی ڈاکٹر حسن صہیب مراد حادثے کے کچھ ہی دیر بعد اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی بے شک اللہ ربّ العزت ان سے راضی ہوگا۔