ماسٹر پلان سے پہلے کراچی کی حیثیت متعین کی جائے

352

وزیراعظم پاکستان عمران خان وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے تقریباً ایک ماہ بعد کراچی پہنچے اور مزار قائد پر بھی حاضری دی جس کے بارے میں بعض اپوزیشن رہنما ان کو مطعون کررہے تھے۔ وزیراعظم نے کراچی کے حوالے سے اہم اعلانات کیے اور کراچی کا نیا ماسٹر پلان بنانے کا اعلان کیا۔ کراچی کو ایک نئے جامع اور دیر پا ماسٹر پلان کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے کراچی کے ایک اور دیرینہ مسئلے یہاں مقیم بنگالیوں اور افغانوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے کا بھی اعلان کیا۔ وزیراعظم عمران خان کے تمام ہی اعلانات ایسے ہیں جن سے اہل کراچی کی امیدیں بندھ گئی ہیں اور یہ معاملات ہیں بھی ایسے جن کی وجہ سے اہل کراچی پریشان تھے۔ وزیراعظم نے ایک اور اہم اعلان کیا ہے یا دھمکی دی ہے کہ اگر 2 ماہ میں صوبائی حکومت نے شہر سے کچرا نہ اٹھایا تو وفاقی حکومت خود یہ کام کرے گی۔ اگر وزیراعظم کے اعلانات کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو یہ کہا جائے گا کہ ابھی تو 20 دن ہوئے ہیں آپ لوگ لٹھ لے کر پیچھے پڑ گئے ہیں کام تو کرنے دو نئی حکومت ہے۔ بات بھی درست ہے کہ اسے کام کا موقع دیا جائے۔ لیکن بات یہ بھی درست ہے کہ کراچی کے بارے میں اعلانات تو ہر حکمران نے خوب بڑھ چڑھ کر کیے ہیں۔ کراچی پیکیج کا اعلان ہوا ہے۔ کراچی کے لیے خصوصی فنڈز جاری کرنے کے وعدے کیے گئے لیکن کراچی والوں تک ان اعلانات کا کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ حال ہی میں مسلم لیگ ن کے رہنما میاں شہباز شریف بھی کراچی کو دنیا کا ترقی یافتہ شہر بنانے کی بات کر گئے تھے وہ تو امتحان سے بچ گئے لیکن عمران خان اب امتحان میں ہیں۔ کراچی کا نیا ماسٹر پلان بنائے گا کون؟ جو لوگ اس وقت کراچی کے معاملات میں دخیل بلکہ قابض ہیں وہ اس شہر کو صرف کمائی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہ صوبائی حکومت کے زیر کنٹرول شہر ہے گزشتہ چند برسوں کے دوران صوبائی حکومت کراچی کے ڈیڑھ درجن محکموں کو اپنی تحویل میں لے چکی ہے۔ ایسی انتظامیہ کی موجودگی میں کراچی کے نئے ماسٹر پلان کا اﷲ ہی حافظ ہوگا۔ اس وقت صورت یہ ہے کہ کراچی کے کسی بھی ضلعے کے کسی بھی رجسٹرار اور سب رجسٹرار کے تقرر کے لیے کروڑوں روپے رشوت لی جاتی ہے۔ یہ لوگ صوبے کے مختلف علاقوں سے کراچی آکر ان اہم مناصب پر بیٹھ جاتے ہیں۔ ہر پلاٹ کے تبادلے، فروخت، خرید، ریگولرائزیشن، نقشوں کی منظوری سمیت ہر کام کرنے کے پیسے سمیٹتے ہیں۔ ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ جو کروڑوں روپے رشوت دی ہے وہ چند ہفتوں میں واپس وصول کرلے اور ایسا ہو بھی جاتا ہے۔ کراچی کے نئے ماسٹر پلان کی تیاری سے قبل کراچی کی حیثیت متعین کرنا ضروری ہے۔ اگر کراچی کی کوئی اہمیت وفاق کی نظر میں ہے اور اس شہر سے حاصل ہونے والے 65 فی صد ٹیکس کی کوئی اہمیت ہے تو کراچی کو وفاقی حیثیت دی جانی چاہیے اس کے بعد اس شہر کا ماسٹر پلان بنایا جائے۔ لیکن اس سے بھی پہلے ایک کام کرنا ہوگا۔ کراچی کے ساتھ جو ظلم مردم شماری میں ہوا ہے اس شہر کی ساٹھ ستر لاکھ آباد کم کردی گئی۔ ماسٹر پلان بنانا ہے تو آبادی کو بھی درست شمار کیا جائے یہ کیسے ممکن ہے کہ ماسٹر پلان تو ایک کروڑ 60 لاکھ آبادی کو سامنے رکھ کر بنایا جائے اور آبادی دو سے ڈھائی کروڑ ہو۔ جب ماسٹر پلان کی بنیاد ہی غلط ہوگی تو ماسٹر پلان تباہی لائے گا۔ وزیراعظم کی جانب سے کراچی میں پیدا ہونے والے بنگالیوں اور افغانوں کو شہریت دینے کا اعلان خوش آئند ہے۔ اس سلسلے میں کوئی اقدام کرنے سے قبل وزیراعظم اور حکومت کو متعلقہ لوگوں سے پوری تفصیل معلوم کرنا ہوگی۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی نے بڑی جد وجہد کی ہے جو بنگالی سقوط مشرقی پاکستان سے قبل بھی پاکستانی تھے اور بنگلا دیش بننے کے باوجود وہاں نہیں گئے ان کی پاکستانیت تو ہر قسم کے شکوک سے بالاتر ہے۔ اسی طرح جو لوگ بنگلا دیش بننے کے نتیجے میں وہاں سے پاکستان آگئے ان کی پاکستانیت پر بھی کوئی سوال نہیں اٹھایا جانا چاہیے۔ لیکن نادرا کے نظام میں موجود کچھ لوگ غیر ضروری رکاوٹیں کھڑی کرکے محب وطن پاکستانیوں کو شناختی کارڈ دینے میں مشکلات پیدا کرتے ہیں یہاں تک کہ 1974ء کے بعد سے آٹھ نو مرتبہ شناختی کارڈ کی تجدید کرانے والوں کی اولادوں سے اپنے ماں باپ کی ہجرت کی دستاویز طلب کی جاتی ہے جب کہ بعض ایسے بنگالی ہیں جو سقوط ڈھاکا سے قبل یا بعد کبھی بنگلا دیش گئے ہی نہیں۔ ان کے بچوں سے بھی پاکستان ہجرت کا سرٹیفکیٹ مانگا جاتا ہے۔ اسی طرح بعض پختونوں کو بھی افغان قرار دے کر ان کو شناختی کارڈ سے محروم کردیا جاتا ہے۔ جب چاہتے ہیں شناختی کارڈ بلاک کردیا جاتا ہے۔ وزیراعظم کو ان تمام امور پر کراچی میں موجود اپنی پارٹی کے ذمے داروں اور جو لوگ اس حوالے سے کام کرتے رہے ہیں ان سے ضرور مشورہ کرنا چاہیے تاکہ اعلانات اقدامات بنیں اور اچھے نتائج دیں۔وزیر اعظم کی جانب سے ان بنگالیوں اور افغانوں کو شناختی کارڈ اور شہریت دینے کے اعلان پر جو 40 برس سے پاکستان میں رہتے ہیں اور یہیں پیدا ہوئے ہیں پیپلزپارٹی نے اپنے روایتی اختلاف کا اظہار کیا ہے۔ پارٹی کے رہنما اور صوبائی وزیر سعید غنی نے اسے خود ہی غیر ملکیوں کو شناختی کارڈ دینا قرار دے دیا ہے اور کہاکہ عمران خان کو بنگالیوں سے ہمدردی ہوتی تو بنی گالہ کے دروازے کھول دیتے۔ ان کا یہ بیان لایعنی ہے۔ سعید غنی نے عمران خان کے افغانوں سے متعلق اعلان کو بھی افغان مہاجرین سے ملادیا ہے اور بلا وجہ اختلاف کررہے ہیں۔ بنگالیوں کے معاملے میں ان کی رگ پھڑکنا تو سمجھ آتا ہے کیونکہ بنگلا دیش کے قیام میں ان کی پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کا کردار سب کو معلوم ہے اس لیے بنگالی خواہ سقوط ڈھاکا سے قبل کا ہو یا بعد میں پاکستان آیا ہو پیپلزپارٹی کی چڑ ہے۔ جہاں تک کراچی کی صفائی اور کچرا اٹھانے کا تعلق ہے تو چیف جسٹس بھی اس سے قبل کچرا اٹھانے کا حکم دے گئے تھے۔ پھر اگلے کسی دورے میں خود ہی کہہ دیا تھا کہ کراچی پہلے کے مقابلے میں صاف ہے۔ اب وزیراعظم نے کہاہے کہ کچرا وفاق اٹھائے گا۔ وفاق کہااں کہاں کا کچرا اٹھائے گا؟؟