افغانستان، امید کی دوکرنیں

282

 

افغانستان کے حوالے سے امید کے سورج سے دو کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔ دونوں کا تعلق تاریخ اور تجربے سے حاصل ہونے والے سبق سے ہے۔ دونوں میں تاریخ اور تجربے نے فریقین کو یہ درس دیا ہے کہ ناکام حکمت عملی کی لکیر پیٹنے سے بہتر تدبیر کی تبدیلی ہوتا ہے۔ امید کی پہلی کرن یہ ہے کہ افغانستان میں برسرپیکار طالبان نے امریکا کے ساتھ مذاکرات کے دوسرے راونڈ پر آمادگی کا اظہار کیا ہے جس سے کئی عشروں سے شورش اور خانہ جنگی کا شکار ملک میں قیام امن کی ایک موہوم امید پیدا ہو چلی ہے۔ افغانستان پاکستان کا براہ راست ہمسایہ بھی ہے اور افغان مہاجرین کی بہت بڑی تعداد کا عارضی ٹھکانہ بھی ہے۔ دونوں علاقوں کے عوام میں تاریخی اور نسلی رشتے اور ثقافتی اور لسانی روابط بھی ہیں اس لیے افغانستان کے حالات جلدیا بدیر پاکستان پر اپنا عکس ڈالتے ہیں۔ افغانستان میں امن ہوتا ہے تو اس کے ملحقہ پاکستانی علاقوں میں بھی امن قائم ہوتا ہے اور افغانستان کسی شورش اور یورش کا مرکز بنتا ہے تو پاکستان میں حالات خراب ہوجاتے ہیں۔ اس لیے افغانستان کے بعد اگر کوئی ملک افغانستان میں امن کا خواہش مند ہوسکتا ہے وہ پاکستان ہے۔ پاکستان ہمیشہ افغانستان میں امن کی کوششیں کرتا رہا مگر دنیا نے افغانستان کو امن واستحکام کے بجائے اپنے وسیع تر اسٹرٹیجک مفادات کی عینک سے دیکھا ہے۔ انہوں نے افغانستان کے مسائل کے حل کے لیے زمینی حقائق کے خلاف راستہ اپنانے کی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے افغانستان امن کی منزل سے کوسوں دور رہا۔ سترہ برس سے امریکا بھی افغان عوام کو آسمانوں سے آتش وآہن کی بارش کرکے جمہوریت اور امن کا سبق پڑھانے میں مصروف ہے مگر یہ طریقہ قطعی ناکام رہا۔ امریکا نے اپنے کردار کو پوشیدہ رکھنے کی خاطر ہمیشہ طالبان اور کابل حکومت کو ایک میز پر بٹھانے کی کوشش کی مگر افغان طالبان کا اصرار رہا کہ وہ کابل حکومت کوکٹھ پتلی اور اس سے مذاکرات کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ طالبان نے ہمیشہ امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر اصرار کیا اور وہ روز اول سے اس انداز کے مذاکرات کی حمایت کرتے رہے۔ امریکا اس حقیقت سے نظریں چراتا اور پہلو بچاتا رہا۔ افغانستان کی زمینی حقیقت یہ تھی کہ ایک طرف امریکا تھا تو دوسری طرف اس سے برسر جنگ طالبان۔ اس کے درمیان جو کچھ تھا قطعی غیر اہم تھا۔ کابل حکومت گوکہ ایک بین الاقوامی انتظام کے تحت وجود میں آئی تھی مگر اس سے پہلے طالبان کی مزاحمت پورے افغانستان میں زور پکڑ چکی تھی۔ اس لیے تنازعے کے ابتدائی فریق امریکا اور طالبان ہی تھے۔ طالبان افغانستان کے اکسٹھ فی صد حصے پر یا تو کنٹرول رکھتے ہیں یا اکسٹھ فی صد علاقہ امریکا اور کابل حکومت کی عملداری سے باہر ہے۔ ایک ایسی طاقت کو کچلنا ممکن ہے اور نہ ہی اسے کسی سیاسی عمل سے باہر رکھ کر امن قائم کیا جا سکتا ہے۔ شاید سترہ برس بعد امریکا کو اس حقیقت کا احسا س ہوگیا ہے کہ افغانستان سے باعزت رخصتی صرف اصل مزاحم قوت سے براہ راست مکالمے ہی سے ممکن ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے دورے کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ امریکا اپنی افغان پالیسی کا ازسرِ نو جائزہ لے رہاہے۔ رواں برس قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان بات چیت کا ایک دور ہو چکا ہے۔ ان مذاکرات کے بارے میں یہ خبریں بھی ہیں کہ امریکا افغانستان میں فوجی انخلا کے بعد بھی دو فوجی اڈوں بگرام اور شورابک کے برقرار رہنے پر اصرار کررہا ہے اور طالبان مکمل انخلا چاہتے ہیں۔ یہ حقیقی وجہ نزع ہے۔ امریکا افغانستان میں جمہوریت قائم کرنے تو نہیں آیا تھا بلکہ اس کے طویل المیعاد مقاصد تھے جن میں چین کا اُبھار اور پاکستان کی ایٹمی طاقت اہم تھی۔ امریکا کی ترجیحات ابھی تک تبدیل نہیں ہوئیں۔ چین کے ساتھ اب روس کو بھی امریکا نے حریفوں کی فہرست میں ڈال دیا ہے۔ پاکستان نہ صرف بدستور ایٹمی طاقت ہے بلکہ وہ امریکی منصوبے کے مطابق بھارت کا ’’چھوٹا‘‘ بننے کی تجاویز اور مشوروں کو پائے حقارت سے ٹھکرا چکا ہے۔ ایسے میں امریکا ان مقاصد سے یکسر غافل ہوکر افغانستان میں اپنے سفارت خانے تک سمٹنا کیسے گوارا کر سکتا ہے؟۔ اس لیے طالبان اور امریکا اپنے اپنے موقف پر قائم رہتے ہیں تو پھر دوحہ میں جلائی جانے والی مذاکرات کی شمع یونہی ٹمٹماتی رہے گی۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ امریکا کو تلخ اور زمینی حقائق کا احساس وادراک ہونے لگا ہے جس سے افغانستان میں قیام امن کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ مذاکرات کا عمل کامیابی سے چل پڑتا ہے تو اس کے اثرات نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے پر مثبت انداز میں مرتب ہوں گے۔ افغانستان کے محاذ پر امید کا ایک اور چراغ کابل اور اسلام آباد کے درمیان ہونے والا نامہ وپیام ہے۔ جس کا آغاز وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے دور�ۂ کابل سے ہوا ہے۔ جہاں اندر کیا ہوا معلوم نہیں ہوا مگر باہر آنے والی خبروں کے مطابق ملتان کے آموں اور قندھار کے انگوروں کے تبادلے کی بات ہوئی اور صدر اشرف غنی کے اسلام آباد کے دورے کے اعلان تک بات پہنچ گئی۔ افغان مسئلے کی ایک جہت کا تعلق کابل اور اسلام آباد کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج اور اعتماد کی کمی ہے۔ امریکا سے افغانستان تک سب کا خیال ہے کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے جو سیٹی بجاتے ہی کابل کو امن وآشتی سے آشنا کر سکتا ہے۔ پاکستان کے پاس ایسی کوئی سیٹی ہوتی تو گزشتہ ڈیڑھ عشرے میں خود اپنے ہاں امن کی قیمت ہزاروں فوجی اور سویلین قربان کرکے نہ چکاتا۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان ہم آہنگی رہنے دی گئی ہوتی اور کابل میں پاکستان مخالف مصنوعی فضاء نہ بنائی گئی ہوتی تو آج افغانستان بہتر حالت میں ہوتا۔
پاکستان اور افغانستان میں کشیدگی کی اصل وجہ مصنوعی ہے۔ دونوں میں فطری اختلاف نہیں۔ دونوں کے درمیان باڑھ لگنا ایک المیہ ہے۔ اب کابل اور اسلام آباد کے درمیان براہ راست روابط شروع ہورہے ہیں مگر اس راہ میں قدم قدم پر سازشوں کی بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں۔ جن قوتوں نے پاکستان اور افغانستان کو باہم متصادم کیا ہے ان کے وسیع تر اسٹرٹیجک اور علاقائی مقاصد ابھی تک تبدیل نہیں ہوئے۔ ایسے میں وہ کابل اور اسلام آباد کے درمیان روابط کو ایک حد تک ہی قبول کر سکتے ہیں۔ اس کے باجود اسلام آباد اور کابل کے درمیان امن اور مفاہمت کی باتیں انگوروں اور آموں کے تبادلے امید کی ایک اور کرن ہے۔