پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اپوزیشن منتشر رہی

104

 

کراچی ( تجزیہ : محمد انور ) صدر مملکت عارف علوی کے مشترکہ پارلیمنٹ کے اپنے پہلے خطاب کے موقع پر ایوان میں موجود اپوزیشن کی جماعتوں نے ایک احتجاج کرکے ایک بار پھر اس بات کا اظہار کیا کہ میں بہت سے معاملات پر اختلافات برقرار ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سمیت دیگر
اراکین نے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کے احتجاجی واک آوٹ کی مخالفت کی اور ایوان میں بیٹھے رہے اور صدر کا پہلا خطاب سنتے رہے۔ پیپلز پارٹی نے بھی اپوزیشن کے واک آوٹ کا ساتھ نہیں دیا تاہم ایم ایم اے کی سربراہی پارٹی جے یو آئی اور مسلم لیگ نواز چھوٹی پارٹیوں کے اراکین پارلیمنٹ صدر کا خطاب شروع ہوتے ہی پارلیمنٹ سے باہر چلے گئے۔ اس واک آؤٹ کے باوجود صدر مملکت عارف علوی کے پارلیمنٹ کے مشترکہ خطاب کی غرض سے ہونے والا اجلاس مجموعی طور پر پرامن رہا۔ لیکن یہ بات آشکار ہوگئی کہ گرینڈ اپوزیشن الائنس مستحکم ہونے سے پہلے اس کا وجود ختم ہونے لگا ہے۔ ایم ایم اے میں شامل جماعت کے امیر سراج الحق نے پارلیمنٹ کے اجلاس سے اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے واک آؤٹ کی مخالفت کی اور پارلیمنٹ میں موجود رہے سراج الحق نے کہا کہ تقریر سننے سے قبل واک آؤٹ کا جواز نہیں تھا۔ اس خصوصی اجلاس سے صدر مملکت عارف علوی کے خطاب کو مبصرین مناسب مگر غیر متوازن قرار دے رہے۔ صدر عارف علوی اپنے خطاب سے یہ باور کررہے تھے کہ وہ تحریک انصاف کے مقرر کردہ صدر ہیں کیونکہ انہوں تقریبا ان تمام وعدوں کو ہی دہرایا جو تحریک انصاف کے منشور کا حصہ ہونے کے ساتھ عمران خان کی مختلف تقاریر کا حصہ رہیں۔ صدر نے کرپشن کے سدباب کے لیے سخت احتساب کا ذکر کیا لیکن اس مقصد کے لیے حکومت کو کوئی کسی قسم کا مشورہ دینے سے گریز کیا۔ یادرہے کہ صدر مملکت عارف علوی کا پارلیمنٹ سے مشترکہ خطاب صدر کا عہدہ سنبھالنے کے چند روز بعد ہی ہوا۔اتنی جلدی کسی صدر کے پارلیمنٹ سے خطاب کی اس سے پہلے کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ جس سے یہ تاثر ملا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اور اس کی شخصیات پارلیمانی سیاست کے فروغ کو ترجیح دینا چاہ رہی ہے۔ صدر کے خطاب کے دوران وزیراعظم عمران خان نہ صرف ایوان میں اطمینان سے بیٹھے رہے بلکہ وہ کئی اراکین سے پہلے ہی ایوان میں پہنچتے گئے تھے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور مشترکہ ایوان کے سب سے کم عمر رکن بلاول زرداری بھی پورے اجلاس میں موجود رہے اور صدر کی تقریر دلچسپی سے سنتے رہے۔