گیس نرخوں میں اضافہ اور نیا بجٹ

341
ترقی پذیر ممالک کو حکومت چلانے کے لیے عالمی اداروں کی ہدایات پر عمل کرنا پڑتا ہے اور پاکستان بھی ان ہی ممالک میں سے ہے۔ 25 جولائی کو پاکستان میں تبدیلی کا اعلان کرنے والوں کی حکومت آئی اور حکومت نے تبدیلی کے اعلانات کے مطابق گورنر ہاؤس اور وزیراعظم ہاؤس کھولنے اور ریسرچ یونیورسٹی بنانے کے اعلانات کردیے۔ ان اعلانات پر عمل ہوتا ہے یا نہیں اس سے عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملے گا۔اور جس اعلان پر عمل در آمد اعلان کے ساتھ ہی ہوجاتا ہے وہ اشیاکی قیمتوں میں اضافے کا اعلان ہوتا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے سے قدرتی گیس کے نرخوں میں اضافہ کرنے اور نہ کرنے کی خبریں اخبارات کی زینت بن رہی تھیں۔ ایک دن خبر آئی کہ حکومت نے گیس نرخوں میں 46 فی صد اضافے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ پھر خبر آئی کہ اجلاس ہوا اور گیس نرخوں میں اضافہ موخر کردیاگیا۔ دو چار دن بعد پھر خبر آئی کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی میں گیس نرخوں میں اضافے کی سمری پیش کردی گئی۔ اس کے بعد گیس بم صارفین پر پھوڑ دیا گیا۔ لیکن جب اضافہ کیا گیا تو یہ اضافہ 143 فی صد تک نکلا۔ صنعتوں کو چھوٹ ملنی چاہیے اس لیے دے دی گئی لیکن سارا بوجھ گھریلو صارفین پر ڈال دیا گیا ہے۔ بلنگ کے لیے سلیب 3 سے بڑھاکر 7 کردیے گئے۔ اب مقامی اور در آمد شدہ گیس کے نرخ یکساں ہوگئے ہیں۔ اب جو اضافہ ہوا ہے اس کے بارے میں اعلان کیا گیا ہے کہ اس کا اطلاق اکتوبر سے ہوگا۔ ابھی اکتوبر میں 12 دن باقی تھے کہ یہ اعلان ہوگیا لیکن یہ کوئی حیرت انگیز فیصلہ نہیں ہے۔ حیرت تو اس وقت ہوتی جب تبدیلی کا دعویٰ کرنے والی حکومت ہر قسم کا دباؤ مسترد کرکے پاکستان کی اپنی قدرتی دریافت گیس کی قیمتوں میں کوئی اضافہ نہ کرتی۔ یہ پاکستان کی اپنی پیداوار ہے اور برسہا برس سے معقول قیمت لے کر صارفین تک پہنچائی جارہی تھی۔ اس کا انتظام کرنے والی کمپنی کے دفتر اور ملازمین کو دیکھ کر بھی کہا جاسکتا تھا کہ اس کمپنی کو خسارہ نہیں۔ لیکن خرابی ہے کہاں۔ اس خرابی کی بنیاد گیس نکالنے کا ٹھیکا غیر ملکی کمپنیوں کو دینے میں ہے۔ جب تک پاکستانی حکومتوں کا بس چلتا تھا یہ کمپنیاں پر پرزے نہیں نکال رہی تھیں لیکن اب ساری دنیا پاکستان کو لوٹنے پہنچی ہوئی ہے۔ غیر ملکی معاہدے اس طرح ہورہے ہیں کہ پاکستان کو سراسر نقصان ہورہاہے اور کوئی حکمران کچھ نہیں بولتا تو ان کمپنیوں نے بھی دباؤ ڈال کر قیمتوں میں اضافہ کروالیا۔ یہ اضافہ محض گیس کے بل میں اضافہ نہیں ہے۔ بظاہر صنعتوں کو چھوٹ ملی ہے لیکن عام صارف کیا کرے۔ اس پر تو بہت دباؤ ہے۔ سی این جی کی قیمت اندازاً 95 روپے ہوجائے گی۔ گویا کم از کم 20 فی صد اضافہ۔ یہ اضافہ صرف 20 فی صد نہیں ہوگا۔ ٹرانسپورٹرز کرایہ بڑھائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو سی این جی کے مساوی لانے کے لیے اضافہ کیا جائے گا اور اس کے اثرات بھی عوام پر براہ راست پڑیں گے۔ گیس کے نرخ بڑھنے سے روٹی، ڈبل روٹی عام ہوٹلوں اور چھوٹے چھوٹے ریستورانوں میں کھانے کی قیمت میں اضافہ ہوگا۔ دال، سالن، کباب، تکہ بوٹی، ہر چیز گیس کے چولہوں پر پکائی جارہی ہے۔ یہ لوگ خسارہ اپنے سر نہیں لیتے فوری طور پر عوام کی جانب دھکیل دیتے ہیں۔ وہ جو سیاسی رہنما کہتے ہیں کہ مہنگائی کا طوفان آئے گا یہ حقیقت ہے کہ طوفان آئے گا۔ کافی عرصے سے سی این جی کی قیمت ایک جگہ منجمد تھی اور خاصا استحکام تھا اگر جسٹس افتخار محمد چودھری ایکشن نہ لیتے تو آج یہ سی این جی 150 روپے فی کلو فروخت کررہے ہوتے۔ انہو نے 87 سے 43 روپے تک قیمت پہنچائی تھی۔ لیکن چور دروازوں سے یہ قیمت رفتہ رفتہ بڑھا کر وہیں پہنچادی گئی۔ اب عدالت عظمیٰ کا سارا زور ڈیم پر ہے اس لیے موقع دیکھ کر حکومت نے گیس کی قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی نیا بجٹ پیش کردیا ہے۔ نیا بجٹ اس طرح کہ کچھ اشیا مہنگی کردی ہیں اور نیا ٹیکس نظام لے آئے ہیں جب کہ صدر، گورنر، وزرائے اعلیٰ کا ٹیکس استثنا ختم کردیاگیا ہے۔ سب سے زبردست بات یہ ہے کہ تمام سابقہ حکمرانوں کی طرح اس بجٹ اور قیمتوں میں اضافے پر یہی کہا گیا ہے کہ عام آدمی پر اس کا اثر نہیں ہوگا۔ گیس قیمتوں کے بارے میں ہر فن مولا فواد چودھری اور غلام سرور کہہ رہے تھے کہ عام آدمی متاثر نہیں ہوگا۔ کیونکہ یہ اضافہ 38 فی صد صارفین کے لیے دس تا 20 فی صد ہوگا۔ چلیں مان لیتے ہیں لیکن بقیہ 62 فی صد لوگ کون ہیں؟ یہی عام لوگ تو ہیں اور ہر چیز کا اثر عوام پر پڑے گا۔ جن صاحب نے نیا بجٹ پیش کیا ہے وہ اسد عمر ہیں۔ چند ماہ قبل بجٹ پر اپنے تاریخی خطاب میں فرمارہے تھے کہ سمجھ میں نہیں آتا اس بجٹ کو دیکھ کر کہ یہ واقعی 20 کروڑ پاکستانیوں کا ملک ہے یا صرف اس کا ہے جس کا رائے ونڈ میں مکان ہے۔ اسمبلی ریکارڈ سے بھی ان کی تقریر نکلواکر انہیں سنائی جاسکتی ہے کہ فرمارہے تھے گیس۔ 2 نئے ٹیکس، بجلی پر تین نئے ٹیکس، اسی گیس کے بارے میں اسد عمر نے فرمایا تھا کہ دنیا میں گیس کی قیمتیں ایک تہائی رہ گئیں اور یہاں ہر سال قیمتیں بڑھائی جارہی ہیں۔ ان کو مٹی کے تیل کی قیمت میں اضافے پر غریب ترین لوگ یاد آئے تھے اور بجلی پر بھی تین نئے ٹیکسوں پر اعتراض کررہے تھے۔ اب چند ماہ بعد ان کے خیالات میں اتنا فرق کیوں۔ صرف اپوزیشن نشستوں سے سرکاری نشستوں پر منتقلی۔ جناب اسد عمر صاحب اگر دنیا میں گیس کی قیمتیں ایک تہائی رہ گئی ہیں تو کیا حکومت مریخ سے گیس منگوارہی ہے کہ 143 فی صد تک مہنگی کردی گئی۔ یہ جملہ تو پاکستان کے ہر وزیر خزانہ کی لکھی ہوئی اور بغیر لکھی ہوئی تقریر میں ضرور شامل ہوتا ہے کہ ہمارے بجٹ سے غریب آدمی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اسد عمر نے بھی یہی کہا ہے کہ غریب آدمی پر اثر نہیں پڑے گا لیکن جب اپوزیشن میں تھے تو اس وقت غریب آدمی کے حوالے سے بہت فکر مند تھے۔ گزشتہ بجٹ پر اپنی تقریر میں اسد عمر نے بجلی پر ٹیکس کا بھی ذکر کیا تھا اور پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے پر بھی تنقید کی تھی۔ اب انہیں بھی یہ فیصلے کرنے ہوں گے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں جو بھی حکمران آتا ہے یا لایا جاتا ہے وہ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں کا محتاج ہوتا ہے جب تک ان اداروں کے چنگل سے نہیں نکلیں گے ایسے ہی فیصلے کرنے پڑیں گے۔ حکومت کو گیس نرخوں میں اضافے کے لیے کئی روز محنت کرکے فضا سازگار بنانا پڑی۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے حوالے سے بھی اسی طرح فضا بنائی جارہی ہے۔ اسد عمر صاحب نے پہلے کہا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔ پھر کہاکہ اس کا فیصلہ پارلیمنٹ کے مشورے سے کریں گے۔ اب قومی خسارے سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانے کا وقت آگیا ہے۔ لہٰذا مشورے کے لیے سب کو بلایا جائے گا۔ وزیراعظم نے کراچی آکر جو کہا تھا ان کا اشارہ شاید اسی جانب تھا کہ ملک کیسے چلے گا، یہ کل پتا چلے گا تو قوم کو پتا چل گیا کہ گیس کی قیمتوں میں 143 فی صد اضافہ کرکے ملک چلے گا۔ایک لطیفہ یہ بیان فرمایا کہ گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہ کیا جاتا تو گیس کمپنیاں دیوالیہ ہوجاتیں۔ عمرانی حکومت نے ان کو بچالیا، بڑا کام کیا۔ لیکن صارفین دیوالیہ ہوئے جارہے ہیں تو عوام کی خیر خواہ اس حکومت کو ان کی کوئی فکر نہیں، بھاڑ میں جائیں۔ بظاہر تو اس حکومت کو عوام نے منتخب کیا ہے لیکن جس نے بھی کیا ہے وہ دوسرے کے کندھے پر بندوق رکھ کر کام چلاتی رہے گی، شور مچانے والے شور مچاتے رہیں۔ عمران خان کی منتخب کردہ ٹیم کتنی اہل اور تجربہ کار ہے، یہ سامنے آتا جارہاہے۔ عوام لکیر پیٹتے رہیں۔