ایک سو اٹھتر ارب روپے کے نئے ٹیکس

452

یہ حقیقت ایک بار پھر کھل کر سامنے آگئی ہے کہ نئی عمرانی حکومت ابھی بے سمت ہے اور اس کے پاس عوام کے مسائل کے حل کے لیے کوئی ٹھوس پروگرام نہیں ہے۔ عمران خان گزشتہ 22 سال سے سیاسی جد وجہد کررہے ہیں اور تنکے تنکے جوڑ کر سیاسی آشیانہ بنایا ہے مگر ان کے تمام معتمد ساتھی اور مشیر ہوا میں اڑتے ہوئے تنکے ہی ثابت ہوئے ہیں جن کا کوئی وژن ہے نہ سمت کا تعین۔ عمران خان 22 سال تک اپوزیشن میں رہے ہیں اور کھل کر برسر اقتدار حکومتوں پر تنقید کرتے رہے ہیں لیکن اب وہ خود حکومت میں ہیں موجودہ اپوزیشن ان کی حکومت کے ہر ہر فیصلے کا احتساب اسی طرح کرے گی جیسے وہ خود کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ اپوزیشن نے کہاہے کہ اب آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوگا، تنقید کرنا آسان ہے اور حکومت کرنا مشکل۔ اصولی طور پر تو یہ بات صحیح ہے کہ نئی حکومت کو کم از کم 100 دن کی مہلت دینی چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سو دن میں حکومت عوام پر اتنا بوجھ لاد دے کہ وہ سانس بھی نہ لے سکیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ کسی بھی حکومت کے ابتدائی اقدامات سے واضح ہوجاتا ہے کہ وہ کس سمت میں جارہی ہے۔ گزشتہ منگل کو عمرانی حکومت کے بہت ماہر معاشیات وزیر خزانہ اسد عمر نے ضمنی مالیاتی بل 2018ء پیش کیا ہے جس میں قوم پر 178 ارب روپے کے ٹیکس عاید کردیے ہیں۔ یہ بات پہلے سے طے تھی کہ نئی حکومت کے وزیر خزانہ اسد عمر ہوں گے جن کے بارے میں یہ تاثر دیا گیا تھا کہ وہ نہایت تجربہ کار اور اقتصادی امور کے ماہر ہیں لیکن انہوں نے جو ضمنی بل پیش کیا ہے اس سے ان کی مہارت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے اور بجا طور پر یہ تشویش بھی پیدا ہوگئی ہے کہ ضمنی بجٹ ایسا ہے تو اگلا مکمل بجٹ کیا آفت ڈھائے گا۔ حسب روایت اب بھی یہی کہا گیا ہے کہ غریب طبقے پر کوئی بوجھ نہیں ڈالا گیا بلکہ سارا بوجھ امیر طبقے پر ڈالا گیا ہے۔ بجٹ کے مطابق موبائل فون، سگریٹ، بڑی گاڑیاں، مہنگی کی گئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ بڑی گاڑیاں ہوں یا چھوٹی گاڑیاں عوام کی دست رس میں نہیں اور ان کو مہنگی کرنے سے ان پر کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن موبائل فون تو اب ایک عام آدمی کی ضرورت بن گیا ہے۔ گھروں میں کام کرنے والی ماسیاں اور خاکروب بھی موبائل فون استعمال کرتے ہیں۔ سگریٹ ایک مضر صحت چیز ہے جس سے پیسہ خرچ کرکے بیماریاں خریدی جاتی ہیں۔ سگریٹ مہنگی کرنے پر تنقید تو نہیں کی جاسکتی لیکن غریب ترین آدمی بھی اس لت میں مبتلا ہے اور قیمت بڑھانے کے باوجود اس کا استعمال جاری رہے گا۔ اس کو روکنے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ سگریٹ بنانے والی کمپنیاں بند کردی جائیں اور تمباکو کی کاشت پر پابندی لگادی جائے لیکن کوئی بھی حکومت یہ نہیں کرسکتی کہ اسے ٹیکس کی مد میں بڑی آمدنی ہوتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آج تک شراب کی تیاری، فروخت اور در آمد پر تو پابندی لگ نہیں سکی کہ اس سے حکومت کا خزانہ بھرتا ہے چنانچہ جگہ جگہ شراب خانے چل رہے ہیں۔ شراب پر پابندی یا اس کی قیمت میں اضافے کا کوئی ذکر نہیں ہوتا ۔ سابق حکومت کے ایک وزیر سیاحت نے تو اس بنا پر پابندی کی مخالفت کی تھی کہ اس سے سیاحت پر اثر پڑے گا اور ن لیگ کے ایک مخمور دانشور رکن قومی اسمبلی نے پابندی کی مخالفت کی تھی۔ سوال یہ ہے کہ یہ جو 178 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں وہ کس کس پر لاگو ہوں گے۔ کیا یہ سب ٹیکس سرمایہ دار طبقے پر لگے ہیں؟ جائداد اور گاڑیاں خریدنے کے لیے فائلر (ٹیکس ادا کرنے والے) اور نان فائلر کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا گیاہے اور اگر فائلر کو ٹیکس کی ادائی کی وجہ سے کوئی سہولت حاصل تھی تو وہ جاتی رہی۔ برآمدی شعبے کو 5 ارب روپے کا ریلیف دیا گیا ہے یہ برآمدات بڑھانے کے لیے ایک اچھا اقدام ہے لیکن اس کا فائدہ ایسے تاجر طبقے کو پہنچے گا جو مال بر آمد کرتا ہے۔ مال بر آمد کرنے کے لیے صنعتوں کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ مصنوعات بیرونی منڈی میں مسابقت کرسکیں۔ پاکستان میں برآمد کرنے کے لیے بہت کم مصنوعات ہیں مگر جب صنعتوں کو گیس اور بجلی نہیں ملے گی تو وہ کیسے کم لاگت پر مال بناسکیں گی۔ بجائے اس کے کہ ٹیکس گزاروں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے یعنی ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے ضمنی بجٹ میں زیادہ بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ڈالا گیا ہے۔ 8 لاکھ سالانہ کی آمدن پر ایک ہزار روپے ٹیکس لگایا گیا ہے۔ اس طبقے کے لیے ٹیکس کے 7 درجے (سلیب) متعارف کرائے گئے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص بالواسطہ ٹیکس ادا کررہاہے۔ کوئی بھی چیز خریدیں، دوا یا غذا، اس پر ٹیکس ہے جو صارف کے علم ہی میں نہیں ہوتا۔پانی کے دو گھونٹ بھی ٹیکس کے بغیر حلق سے نہیں اترتے۔ عمران خان جب تک خود اقتدار میں نہیں آئے تھے، حکومتوں پر مہنگائی بڑھانے اور عوام کا خون چوسنے کے الزامات لگاتے رہتے تھے۔ 2014ء میں اپنے تاریخی دھرنے میں انہوں نے ہدایت کی تھی کہ گیس، بجلی کے بل ادا نہ کیے جائیں۔ اب اان کا مشورہ کیا ہوگا؟ گیس کی قیمت میں تو بے تحاشا اضافہ کر ہی دیا گیا ہے جس سے تنور کی روٹی تک مہنگی ہوجائے گی اور اب بجلی کی قیمت میں مزید اضافے کی سوجھ رہی ہے۔ فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی کی قیمت میں ایک روپے 49 پیسے اضافے کی تجویز ہے۔ تقسیم کار کمپنیوں نے اس کے لیے نیپرا امیں درخواست دے دی ہے۔ گیس کی قیمتوں میں ظالمانہ اضافے سے مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا۔ امیر جماعت اسلامی سندھ ڈاکٹر معراج الہدیٰ نے اضافہ واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاہے کہ ’’نئے پاکستان‘‘ میں عام آدمی کا زندہ رہنا مشکل ہوگیا۔اہم سوال یہ ہے کہ نئے پاکستان کے لیے عمران خان کے دعوے کہاں گئے؟