ابھی وزیراعظم پاکستان کی جانب سے بنگالیوں اور افغانوں کو شناختی کارڈ جاری کرکے شہریت دینے کے اعلان پر اسمبلی میں بات بھی نہیں ہوئی تھی کہ دباؤ کے نتیجے میں وزیراعظم کو وضاحت جاری کرنا پڑی۔ اسے ان کا یوٹرن نہ کہا جائے لیکن پھر کیا کہا جائے۔ اب انہوں نے کہا ہے کہ بنگالیوں اور افغانوں کو شہریت دینے کا فیصلہ نہیں ہوا میں نے تو صرف تجاویز مانگی ہیں۔ بہرحال پیپلز پارٹی اور قوم پرستوں کے اعتراض کے بعد حکومت پسپا ہوتی نظر آرہی ہے۔ اس اعلان پر عمل تو تب ہی ہوگا جب اسمبلی اس کو منظور کرے گی لیکن وزیراعظم کے اعلان میں ایک اہم نکتہ رہ گیا اور وہ محصور پاکستانیوں کا تھا۔ ان محصور پاکستانیوں نے پاکستان کی خاطر اب تک پاکستانی پرچم اٹھا رکھا ہے۔ ان کے سامنے بنگلادیش کے قیام کے وقت بنگلادیشی شہریت قبول کرنے کی پیشکش رکھی گئی تھی لیکن پاکستانی حکمرانوں نے یقین دلایا تھا کہ تمہیں جلد واپس بلالیں گے اس لیے انہوں نے اس پیشکش کو مسترد کردیا۔ آج بھی وہ محصورین کیمپوں میں غیر انسانی حالات میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ان لوگوں کی تو شہریت کا بھی مسئلہ نہیں تھا وہ ہر طرح سے پاکستانی ہیں انہیں صرف شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جاری کیا جانا ہے۔ اس خبر کی اشاعت کے بعد جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے وزیراعظم کو توجہ دلائی تھی کہ محصور پاکستانیوں اور کراچی میں مقیم بہاریوں کو بھی اس تجویز میں شامل کیا جائے۔ عمران خان کے وضاحتی بیان سے لگ رہا ہے کہ حکومت پر دباؤ آگیا ہے اور یہ اعلان محض ایک تجویز بن کر رہ جائے گا جو آسانی سے مسترد ہوسکتی ہے۔