سابقہ حکمرانوں کو تگنی کا ناچ نچانے کے بعد اب عوام کو تگنی کے ناچ نچانے کے فیصلے کیے جارہے ہیں۔ منی بجٹ جس کی ایک صورت ہے۔ تردید، پھر تردید اور پھر تردید کے بعد نئی حکومت نے ایک روز پہلے گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا اور اگلے دن منی بجٹ۔ 178 روپے کے نئے ٹیکس۔ فنانس ترمیمی بل وزیر خزانہ اسد عمر نے قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ یہ اقدام معیشت کی بہتری کے لیے کیا گیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ترمیمی بل میں ایسے اقدام اٹھائے گئے ہیں جن کا بوجھ مالدار طبقے پر پڑے گا۔ حکومت نے ٹیکس سہولت اور ڈیوٹیوں سے استثنا واپس لے کر ٹیکسوں میں زبردست اضافہ کیا ہے۔ ہر نئی حکومت آتے ہی عوام کی دھنائی کرتی۔ یہ اسی روایت کا تسلسل ہے۔ نواز حکومت نے بھی آتے ہی عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کردی تھی۔ ترمیمی بل میں ایسا کوئی کام نہیں کیا گیا جس سے فی کس آمدنی میں اضافہ ہو۔ اس سے پہلے گیس کی قیمتوں میں اضافے میں بھی بڑی فن کاری کا مظاہرہ کیا گیا۔ 50کیوبک میٹر گیس پر 10فی صد، 100پر 20فی صد، 200 پر 30فی صد 300 پر 25فی صد 400 پر 30فی صد اور 500 کیوبک میٹر یا اس سے زاید گیس استعمال کرنے کا جرم کرنے والوں پر اضافہ 143فی صد۔ نہ جانے کیوں 143 کو راؤنڈ فیگر 150 نہیں کیا گیا۔ عوام نے غربت، مہنگائی، بے روزگاری، توانائی اور نوع بہ نوع مسائل کے حل کے لیے عمران خان کو ووٹ دیے تھے لیکن لگتا ہے حکومت جلد از جلد انہیں اس حماقت کی سزا دینے پر تلی ہوئی ہے۔ عوام کی قوت خرید اور استطاعت کو پیش نظر رکھنے کے بجائے ’’ملک کے وسیع تر مفاد میں‘‘ فیصلے کیے جارہے ہیں۔ تبدیلی اور نئے پاکستان کے نعروں کو عوام نے سچ سمجھا تھا۔ حکومت عوام کو اس خوش فہمی سے نکالنے کے لیے اپنی تمام صلاحیتوں کے ساتھ بروئے کار ہے۔
ایک طرف فنانس ترمیمی بل سے براہ راست قیمتوں میں اضافہ کیا گیا۔ دوسری طرف گیس کی قیمتوں میں اضافے پر احسان کی ایک صورت یہ اختیار کی گئی کہ اس اضافے سے غریب اور متوسط طبقہ زیادہ زیر بار نہیں ہوگا اس کا اصل ہدف وہ صارف ہیں جو پانچ سو کیوبک میٹر سے زاید گیس استعمال کرتے ہیں جو یقیناًغریب اور متوسط طبقہ نہیں ہے۔ بات درست ہے۔ اس اضافے کی زد میں چھوٹے بڑے کارخانے، فیکٹریاں، ہوٹلز، پکوان ہاؤس وغیرہ آئیں گے۔ جن کی پیداواری لاگت میں بہت زیادہ اضافہ ہوجائے گا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پانچ سو کیوبک میٹر سے زاید گیس استعمال کرنے والے وہ صارفین جن کا بل 14ہزار 9سو 73 روپے آتا تھا، قیمتوں میں اضافے کے بعد ان کا بل 36ہزار 402 روپے تک آئے گا۔ یہ اضافہ کیا وہ اپنے منافع میں سے کٹوتی کرکے ادا کریں گے۔ ہرگز نہیں۔ یہ اضافہ اشیا کی قیمت فروخت پر منتقل کردیا جائے گا جس کا نشانہ آخرکار غریب عوام ہی ہوں گے۔ فریب کاری کی اعلیٰ صلاحیتوں کو کام میں لاتے ہوئے ان ٹیکسوں کو کچھ بھی نام دیا جائے نچڑنا بلآخر عوام ہی کو ہے۔ اس اعلیٰ کارکردگی کے نتیجے میں آئی ایم ایف سے قرضے کا حصول ممکن ہوجائے گا۔ پرانے سرمایہ دارانہ نسخے کو نئے چہروں کے ذریعے عوام کے منہ پر مار دیا گیا ہے۔ عوام پر مہنگائی کا پہاڑ ٹوٹ پڑے گا لیکن لیجیے حکومت چل پڑی۔ اور کیا چاہیے۔ الیکشن مہم کے دوران عوام کئی ماہ سڑکوں پر رہنے کے بعد جیسے ہی گھروں میں ٹکے انہیں پھر سڑکوں پر لانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ جس کی سکت عوام میں نہیں۔ پی ٹی آئی حکومت عوام کی اسی کمزوری کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ ویل ڈن۔
نیازی حکومت کی حکمت عملی یہ ہے کہ پہلے سابقہ حکومتوں خصوصاً نواز شریف کی حکومت کو جی بھر کر کوسنے دیے جائیں۔ خوب برا بھلا کہا جائے۔ اس کی شاہ خرچیوں کے قصے اس تواتر سے بیان کیے جائیں کہ لوگوں کو ازبر ہو جائیں۔ یہ دہائی دی جائے کہ ہر ادارہ تباہ حال اور بربادی کی آخری ساعتوں میں جی رہا تھا۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ کو قوم کی حالت پر ترس آیا اور اس نے عمران خان کی صورت میں ایک نجات دہندہ عطا کردیا۔ ورنہ پاکستان کی داستان بھی نہ ہوتی داستانوں میں۔ اس حکمت عملی کے تحت گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے یہ کہنا ضروری سمجھا گیا کہ 2013 میں جب مسلم لیگ کی حکومت آئی تو گیس کمپنیاں (ایس این جی پی ایل یعنی سوئی نادرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ اور ایس ایس جی سی یعنی سوئی سدرن گیس کمپنی) منافع میں چل رہی تھیں۔ لیکن جب ان کی حکومت ختم ہوئی تو یہ گیس کمپنیاں ایک سو 52ارب روپے خسارے میں ہیں۔ اسی طرح کے اعداد وشمار ترمیمی بل پیش کرتے ہوئے بھی بیان کیے گئے۔ ان اعداد وشمار کی درستی اپنی جگہ ایک سوال ہے۔ تاہم اگر درست تسلیم بھی کرلیا جائے تو کیا کسی ادارے یا ملک کو نقصان سے نکالنے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ عوام کی گردنوں پر مزید بوجھ لاد دیا جائے۔ کوئی اور طریقہ اس مشکل سے نکلنے کے لیے نہیں ہے۔ عوام کو خوب فریب دیا جارہا ہے۔ سابقہ حکومتوں کے بڑی تعداد میں زیر استعمال کاروں کی الیکٹرونک میڈیا پر اس قدر تشہیر کی جارہی ہے کہ عوام کو ان کے رنگ اور ماڈل ازبر ہوگئے ہیں۔ وزیر اعظم ہاؤس کو دودھ دیتی بھینسوں کو اس تواتر کے ساتھ دکھایا جارہا ہے جیسے سابق وزیراعظم نواز شریف کی صحت کا راز ان ہی بھینسوں کا دودھ تھا۔ گورنر ہاؤسز کو عوام کے لیے سیر گاہ بنانے کا تو کیا ہی کہنا۔ اس کھیل تماشے کی قیمت عوام سے دو طرح وصول کی جائے گی۔ ایک براہ راست گیس کی قیمتوں میں اضافے اور دوسرے ان بے شمار اشیا کی خریداری کی صورت میں گیس کے بلوں کی وصولی کے ساتھ ہی جن کی قیمتوں میں بے محابا اضافہ ہوجائے گا۔
فنانس ترمیمی بل پیش کرنے کے لیے اسمبلی کا فورم استعمال کیا گیا جب کہ گیس کی قیمتوں میں اضافے کا کارخیر اقتصادی مشاورتی کونسل نے انجام دیا جس کی پہچان عاطف میاں قادیانی کا بطور مشیر تقرر کے بعد سامنے آئی تھی۔ جس کے سربراہ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر ہیں۔ اقتدار میں آنے سے پہلے جن کی پہچان اس طرح کے اعداد وشمار ہوتے تھے کہ اگر حکومت عوام سے مخلص ہو تو پٹرول کی قیمت 46روپے فی لیٹر ہونا چاہیے۔ اب دیکھیے وہ کب پٹرول کو اس قیمت پر لاتے ہیں۔ اقتصادی مشاورتی کونسل کی تشکیل نو تو کردی گئی مگر اس کے ماتحت قومی اقتصادی پالیسیاں تبدیلی کی کسی نئی صورت کے بغیر اسی پرانی ڈگر پر چلتی نظر آرہی ہیں۔ تحریک انصاف کی اقتصادی پالیسیوں ہی سے پتا چلے گا کہ ملک اور عوام کی تقدیر سنوارنے کے لیے اس کے پاس کیا ہے جو پچھلی حکومتوں سے برعکس ہے۔ حکومت سنبھالتے ہی بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے اور منی بجٹ کے ذریعے عوام پر نئے ٹیکسوں کا بوجھ لادنے اور تنخواہ دار طبقے کی زندگی مشکل سے مشکل تر بنانے کی جو صورت اس حکومت کے آغاز ہی میں سامنے آئی ہے اس سے عوام کی امیدوں پر اوس پڑنے کے ساتھ ساتھ یہ تاثر گہرا ہوا ہے کہ اگر یہ حکومت ٹک گئی تو عوام کی خیر نہیں۔
اپنی الیکشن مہم میں عمران خان زیادہ تر اقتصادی معاملات ہی کو فوکس کرتے رہے ہیں۔ اقتصادی صورت حال بہتر بنانے اور آسودہ حال عوام کی منظر کشی کے لیے وہ مدینے جیسی ریاست کی اصطلاح استعمال کرتے رہے ہیں۔ ایک ہی ماہ میں حکومت کی طرف سے اس اصطلاح کے استعمال میں کمی آتی جارہی ہے۔ عوام کی ایک بڑی تعداد کو امید ہے کہ عمران خان اپنے انقلابی ایجنڈے سے ملک وقوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ لیکن واقفان حال پوچھ رہے ہیں کہ کیا عمران خان کی حکومت کے پاس واقعی کوئی انقلابی ایجنڈا ہے اگر ہے تو کہاں ہے، کس طرح کا ہے، کس رنگ وروپ کا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے اقتدار میں آتے ہی بیل آؤٹ پیکج کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانے کا عندیہ دیا تھا۔ روپے کی قدر تیزی سے نیچے گرنے کی وجہ سے بیرونی قرضوں میں پہلے ہی خوامخواہ گیارہ سے پندرہ فی صد اضافہ ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرض لینے کے بعد ملک اور عوام کو اس کی نئی پہلے سے بھی شدید کڑی شرائط کے ساتھ جکڑ دیا جائے گا۔ جس کے بعد پٹرولیم مصنوعات، بجلی گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ پچھلی حکومتوں کی طرح عمران خان کی حکومت کی بھی مجبوری بن جائے گا۔ آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کے لیے منی بجٹ اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں یہ پہلی قسط ہے جو عوام کے سامنے آئی ہے۔ بقیہ اقساط کی تیاریاں بھی جاری ہیں۔ روک سکو تو روک لو! مہنگائی آئی رے۔