رسول اکرمؐ کی ایک حدیث میں ایک ایسے دور کی پیشگوئی موجود ہے جس میں فتنے بارش کی طرح برسیں گے۔ بدقسمتی سے ہمارا دور ایک ایسا ہی عہد ہے۔ اخبارات ہوں یا رسائل، ریڈیو ہو یا ٹیلی وژن ہر طرف فتنوں کا راج ہے۔ اس راج کی ایک مثال 10 ستمبر 2018ء کے روزنامہ دنیا میں شائع ہونے والا خورشید ندیم کا کالم ہے۔
خورشید ندیم جاوید احمد غامدی کے شاگرد رشید، میاں نواز شریف کے پرستار اور عمران خان کے زبردست ناقد ہیں مگر ڈاکٹر عاطف میاں کے مسئلے کے حوالے سے وہ عمران خان اور ان کی حکومت کے دُکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایک قادیانی مبلغ کو عمران خان نے اگر اقتصادی مشاورتی کونسل میں شریک کرلیا تھا تو کوئی غضب نہیں ہوگیا تھا مگر ملک کے مذہبی طبقات بھڑک اُٹھے اور بیچارے عمران خان کو ان کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ لیکن یہ خورشید ندیم کے کالم کی اصل بات نہیں ہے۔ خورشید ندیم کے کالم کی اصل باتیں کیا ہیں آئیے دیکھتے ہیں۔
خورشید ندیم کی ایک اصل بات انہی کے الفاظ میں یہ ہے۔
’’ہم ریاست کو ایک مذہبی ادارہ سمجھتے ہیں حالاں کہ وہ ایک سیاسی ادارہ ہے۔ اس سیاسی ادارے کو جب ہم مذہبی بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ مسائل کھڑے ہوتے ہیں جن میں سے ایک مسئلہ قادیانیوں سے متعلق بھی ہے۔ ہم نے مذہبی معاملات کو ریاست کے وظائف میں شامل کردیا حالاں کہ وہ اس کے لیے بنی ہی نہیں‘‘۔
جس طرح جاوید غامدی اپنے سیکولر ازم، مغربیت اور جدیدیت زدگی کو چھپاتے ہیں ٹھیک اسی طرح اس بیان میں خورشید ندیم نے بھی ان تمام چیزوں پر پردہ ڈالا ہے۔ ایسا نہ ہوتے تو وہ صاف کہتے کہ جدید ریاست ایک سیکولر ادارہ ہے اور سیکولر ادارے میں اسلام یا کسی بھی دوسرے مذہب کا کوئی دخل ہی نہیں ہوسکتا۔ چناں چہ پاکستان میں یہ اسلام کہاں سے چلا آتا ہے۔ مگر خورشید ندیم کو معلوم ہے کہ جس طرح لوگ لفظ سوشلزم یا کمیونزم سے چڑتے اور بھڑکتے تھے اسی طرح تمام مسلمان سیکولر ازم کی اصطلاح سے بھی بھڑکتے ہیں۔ چناں چہ انہوں نے سیکولرازم کا مقدمہ تو پیش کیا مگر اس طرح جیسے وہ محض حسِ مشترک عرف عقلِ عامہ عرف Common Sense کے مطابق کوئی بات کہہ رہے ہوں۔ یہاں ظفر اقبال کا شعر یاد آگیا۔
کہیں چھپائے سے چھپتی ہے بے حسی دل کی
ہزار کہتا پھرے مست ہے قلندر ہے
خیر یہ ایک الگ قصہ ہے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی ہر چیز ہمیشہ سے اسلامی ہے اور ہمیشہ اسلامی رہے گی۔ حکومت، ریاست، قانون، ضابطے، تعلق، بے تعلقی، جنگ، امن، رزق، محبت، عداورت۔ چناں چہ مسلم معاشرے میں مذہب کو ریاست یا ریاست کو مذہب سے جدا کرنا اسلام، پوری اسلامی تہذیب اور پوری اسلامی تاریخ کو گالی دینا ہے۔ بدقسمتی سے خورشید ندیم نے ریاست اور مذہب کی دوئی کے مغربی اور سیکولر تصور کو گلے لگا کر یہی کیا ہے۔ اقبال نے کہا ہے۔
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِ ہاشمی
مگر خورشید ندیم کا اصرار ہے کہ اصل تو مغربی اقوام ہیں۔ چوں کہ مغربی اقوام مذہب اور ریاست کی جدائی کی قائل ہیں اس لیے مسلمانوں کی ہر جدید ریاست کو بھی یہی کرنا چاہیے۔ ایسا ہے تو خورشید ندیم صاف کہیں کہ جدید ریاست کے لیے اسلام اذکار رفتہ چیز ہے۔ مگر یہ مسئلہ ریاست کا تھوڑی ہے۔ جدیدیت کے لیے ریاست سے قطع نظر بھی اسلام ماضی کی یادگار کے سوا کچھ نہیں۔ تو کیا مسلمان خورشید ندیم کے آقا مغرب کی خواہش کے مطابق مغرب کو ’’حق‘‘ مان کر اس پر ’’ایمان‘‘ لے آئیں؟ خورشید ندیم نے اپنے کالم میں یہ بھی فرمایا ہے کہ مذہب انسانوں کا ہوتا ہے ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ یہ بات قرآن مجید کی تکذیب کے مترادف ہے۔ اس لیے کہ قرآن صاف کہتا ہے کہ شجر اور حجر ہی نہیں ثوابت و سیار بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے اور اس کے آگے سجدہ ریز ہیں۔ یعنی یہ پوری کائنات اپنی اصل میں ’’مسلم‘‘ ہے۔ اس تناظر میں ریاست بھی ’’مسلم‘‘ ہونے پر مجبور ہے۔ سیکولر عناصر اس تصور کو عام کرنے میں لگے رہتے ہیں کہ ریاست سمیت بہت سی چیزیں اقدار سے بے نیاز یا Value Neutral ہوتی ہیں حالاں کہ کائنات اور دنیا کی کوئی شے بھی اقدار سے بے نیاز یا Value Neutral نہیں۔ خورشید ندیم نے خود تسلیم کیا ہے انسانوں کا بہرحال مذہب ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ انسان مذہبی ہیں تو ریاست مذہبی ہوگی اور انسان سیکولر یا لادین ہوں گے تو ریاست سیکولر یا لادین ہوگی۔ اسی طرح جس طرح روس میں سوشلسٹ انقلاب کے بعد ایک سوشلسٹ ریاست وجود میں آئی۔ اب اگر دنیا کے مختلف علاقوں کے انسانوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے عقاید اور فکر کے مطابق ریاست کو سرمایہ دارانہ بنانا چاہیں تو اسے سرمایہ دارانہ بنالیں۔ سوشلسٹ بنانا چاہیں تو اسے سوشلسٹ بنالیں تو پھر بیچارے مسلمانوں نے ایسا کیا جرم کیا ہے کہ وہ اپنی ریاست کو اپنی فکر کے مطابق اسلامی نہ بنائیں۔ یہ ہمارے سامنے کی بات ہے کہ یہودیوں نے اسرائیل کو یہودی ریاست قرار دے دیا ہے۔ ہندوستان عملاً ’’ہندو ریاست‘‘ بن چکا ہے اور بی جے پی کو مزید طاقت میسر آئی تو وہ ہندوستان کے آئین میں بھی ترمیم کر ڈالے گی اور ہندوستان کو ’’ہندو ریاست‘‘ بنادے گی۔ چین نے خود کو سرمایہ داری اور سوشلزم کا ملغوبہ بنالیا ہے اور خورشید ندیم کیا امریکا اور یورپ کو بھی ان میں سے کسی ’’تبدیلی‘‘ پر اعتراض نہیں مگر مسلمان ریاست کو اسلامی کہیں اور اس میں اسلام کو بالادست بنائیں تو خورشید ندیم کی طبع نازک پر گراں گزرتا ہے۔
خورشید ندیم نے مزید لکھا ہے۔
’’جدید مسلم مفکرین میں اگر جدید ریاست کو کسی نے سمجھا ہے تو وہ علامہ اقبال ہیں۔ انہوں نے بنیادی سوال اُٹھا دیے تھے جنہیں مخاطب بنائے بغیر مسلم فکر کو جدید ریاست سے ہم آہنگ میں نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
خورشید ندیم کے کالم کا یہ اقتباس پڑھ کر کوئی لاعلم یا کم علم شخص اس خیال میں مبتلا ہوسکتا ہے کہ شاید اقبال بھی سیکولر تھے اور انہوں نے بھی غامدی صاحب کے شاگرد اور نواز شریف کے پرستار خورشید ندیم کی طرح مذہب اور سیاست کو الگ کرنے کا مطالبہ کیا ہوگا۔ آئیے دیکھتے ہیں اقبال اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں۔
اقبال کا ایک شعر ہے۔
حکومت، پادشاہی، علم اشیا کی جہانگیری
یہ سب کیا ہیں فقط اک نکتہ ایماں کی تفسیریں
اقبال کا ایک شعر یہ ہے۔
اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے
تُو احکامِ حق سے نہ کر بے وفائی
اقبال کا ایک شعر یہ ہے۔
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں محفلِ انجم بھی نہیں
اقبال کے ان تینوں شعروں کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کی اصل بالخصوص مسلمانوں کی زندگی کی اصل مذہب ہے۔ خدا انسان کو ولایت دیتا ہے یعنی اپنا ولی یا دوست بناتا ہے تو ایمان کی وجہ سے اسے بادشاہی عطا کرتا ہے تو ایمان کے باعث اسے علم اشیا کی جہانگیری عطا کرتا ہے تو مذہب کے سبب سے۔ اور کون نہیں جانتا کہ ایمان ایک روحانی یا مذہبی حقیقت یا تصور ہے۔ خورشید ندیم ملک یا ریاست کو پوج رہے ہیں مگر اقبال کہہ رہے ہیں کہ ’’احکام حق‘‘ یا اسلام اتنا اہم ہے کہ اگر اس کے تحفظ کے لیے ملک یا ریاست کو بھی قربان کرنا پڑے تو کردو۔ اقبال نے تیسرے شعر میں صاف کہا ہے کہ مسلمان ایک قوم بھی بنتے ہیں تو نسل، جغرافیے یا زبان کی وجہ سے نہیں بلکہ مذہب کی وجہ سے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو فکر اقبال کی روشنی میں مذہب کے سامنے قدیم یا جدید ریاست کی کوئی اوقات ہی نہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ خورشید ندیم نے اپنے کالم میں اقبال کی فکر کی بھی تو ہین کی ہے اور اپنے قارئین کو اقبال کے حوالے سے گمراہ کیا ہے۔
خورشید ندیم مزید لکھتے ہیں۔
’’علما نے اجتہاد کیا اور اپنے تئیں جدید ریاست کو قرآن و سنت کا پابند بنا کر اس کو اسلامائز کردیا۔ یہ اجتہاد ناکام ہوگیا۔ اس ناکامی کی اس سے بڑی دلیل کیا ہوگی کہ ہمارا مذہبی ذہن ایک سفارشی کمیٹی میں بھی ایسے فرد کو گوارا نہ کرسکا جو ہم سے مختلف مذہبی خیالات رکھتا ہے‘‘۔
اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کو اسلامی بنانا کوئی ’’اجتہادی عمل‘‘ نہیں بلکہ ایک ’’فطری عمل‘‘ ہے۔ مسلمانوں کی ہر چیز اسلامی ہے تو فطری طور پر ریاست بھی اسلامی ہوگی۔ دوسری بات یہ کہ علما نے اگر بالفرض جہاد کیا بھی تھا تو وہ ناکام نہیں ہوا بلکہ عمران خان کی حکومت اسلام کے منشا اور اجتہاد کے تقاضوں کو سمجھنے میں ناکام ہوئی۔ تیسری بات یہ کہ قادیانی نہ اسلام کے ’’Insider‘‘ ہیں نہ ’’Outsider‘‘۔
اسلام کے Insider وہ ہیں جو اسلام کے بنیادی عقاید کو مانتے ہیں خواہ ان میں مسلک یا فقہ کے اعتبار سے کتنا ہی فاصلہ کیوں نہ ہو۔ اسلام کے Outsider عیسائی ہیں، یہودی ہیں، ہندو ہیں، پارسی ہیں، بدھسٹ ہیں۔ یہاں تک کہ کافر بھی اسلام سے Outsiderہیں۔ Outsider اسلام کے کھلے حریف ہیں۔ چناں چہ انہیں اسلامی ریاست کے ڈھانچے میں شامل کرنے کے لیے صرف اتنا دیکھ لینا کافی ہے کہ وہ ریاست اور اس کے باشندوں کے خلاف تو نہیں ہوں گے۔ مگر قادیانی اپنے عقاید کی وجہ سے اسلام کے بنیادی عقاید کے دشمن بھی ہیں اور وہ ایک طرح کے فکری برزخ میں بھی لٹکے ہوئے ہیں۔ چناں چہ ان سے اصل خطرہ ہمارے عقاید کو ہے۔ ان عقاید کو جن کے بارے میں کوئی مسلمان غیر جانبدار ہو ہی نہیں سکتا۔ پھر قادیانیوں کی تاریخ میں ریاست سے غداری کا عنصر بھی شامل ہے اسی لیے کہ وہ سو فی صد غیر ملکی طاقتوں کے آلہ کار ہیں۔ کبھی وہ صرف انگریزوں کے آلہ کار تھے مگر اب یہودی، عیسائی اور ہندو بھی انہیں استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر غامدی صاحب کے شاگرد خورشید ندیم کے نزدیک مسئلہ صرف اتنا ہے کہ قادیانی مذہبی اعتبار سے مسلمانوں سے ’’مختلف‘‘ ہیں۔
خورشید ندیم نے اپنے کالم میں یہ شکایت بھی کی ہے کہ علما پاکستان میں ایک مسئلہ لے کر کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ مسئلہ حل ہوتا ہے تو وہ پھر دوسرا مسئلہ لے کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایک جانب خورشید ندیم ’’ارتقا‘‘ کے بڑے قائل ہیں۔ دوسری جانب ارتقا کے نتیجے میں نیا مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور علما اس کے حل پر اصرار کرتے ہیں اور حکمرانوں کے سامنے نیا مطالبہ رکھتے ہیں تو خورشید ندیم اس پر اعتراض کرتے ہیں۔ ارے بھئی زندہ قوموں کی زندگی میں نئے مسائل پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں اور اسلام قیامت تک رہنمائی کے لیے آیا ہے۔ چناں چہ علما کا فرض ہے کہ وہ دائمی طور پر حکومت، ریاست اور عامتہ الناس کی رہنمائی کریں۔
خورشید ندیم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر معاشرہ یا ریاست مسلمانوں کی ہو تو وہاں فیصلے انصاف اور اکثریتی طبقے کی خواہشات کے مطابق ہونے چاہئیں۔ یہ کہہ کر خورشید ندیم نے پاکستان کے آئین پر بم دے مارا ہے۔ پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ ملک میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بن سکتا۔ یعنی قانون سازی یا ریاست کی مرضی کے سلسلے میں اصول ’’اکثریت‘‘ نہیں بلکہ قرآن و سنت سے ہم آہنگی ہے۔ قادیانیوں کی ریاستی ڈھانچے میں شمولیت قرآن و سنت کی روح کے منافی ہے۔ اس لیے ایک قادیانی کو مشیر بنانے پر ہنگامہ ہوا۔ مگر خورشید ندیم کا خیال ہے کہ حکمران اکثریت کی وجہ سے حلال و حرام اور غلط اور صحیح کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں۔ یہ بات پاکستان کے آئین سے غداری کے مترادف ہے۔