افغانستان سے ایک نیا مہیب خطرہ!

681

دیا میر بھاشا اور مہمند بند کی تعمیر کے لیے سرمایہ جمع کرنے کی غرض سے چیف جسٹس اور وزیر اعظم عمران خان کی اپیلوں میں پاکستان ایسا الجھا ہوا ہے کہ ایسا معلوم ہوتاہے کہ اسے سرحد پار افغانستان سے اس مہیب خطرے کا کوئی احساس نہیں ہے جو افغانستان میں ہندوستان کی طرف سے تعمیر کیے جانے والے متنازع بند کی صورت میں ابھر رہا ہے۔ معلوم نہیں کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پچھلے دنوں کابل کے دورے میں صدر اشرف غنی اور افغان وزیر خارجہ سے اس متنازع بند پر کوئی بات چیت کی یا نہیں؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یا تو اسلام آباد میں اس مسئلہ کی سنگینی کا ادراک نہیں یا پاکستان مصلحتاً خاموشی اختیار کرنا چاہتا ہے۔ میڈیا نے بھی پر اسرار چپ سادھ لی ہے۔
ہندوستان نے اس ماہ سے 23کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر کی لاگت اور عالمی بینک کے تعاون سے دریائے کابل پر شہتوت بند کی تعمیر شروع کی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو اس بند کا نشیبی ساحلی علاقہ ہونے کی وجہ سے دریائے کابل سے پانی کے بہاو میں بے انتہا کمی کی صورت میں سخت تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دریائے کابل، وسطی افغانستان میں ہندو کُش کے پہاڑوں سے نکلتا ہے اور سات سو کلو میٹر کا سفر طے کرتا ہوا مشرق میں کابل، سروبی اور جلال آباد سے ہوتا ہوا پاکستان میں خیبر پختون خوا میں داخل ہوتا ہے اور پشاور اور نو شہرہ سے ہوتا ہوا اٹک کے قریب، دریائے سندھ میں جا گرتا ہے۔ دریائے کابل کا طاس، افغانستان کے 9 صوبوں اور پاکستان کے 2صوبوں پر محیط ہے۔ یوں اس پر دو کروڑ پچاس لاکھ افرادکی زندگی کا دار ومدار ہے۔ دارالحکومت کابل کے قریب چہار آسیاب کے علاقہ میں دریائے کابل پر شہتوت بند کی تعمیر کے منصوبہ کے حق میں یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ کابل کی زمین بنجر ہونے کی وجہ سے جہاں سال میں صرف 362ملی میٹر بارش ہوتی ہے، پانی کی فراہمی کے لیے یہ بند لازمی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ چہار اسیاب میں صرف دریائے کابل پر بند کی تعمیر سے 147ملین کیوبک پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا۔ یہ صحیح ہے کہ افغانستان میں پانی کی قلت کا مسئلہ ہے لیکن سرحد پار پاکستان میں پانی کی قلت کا مسئلہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ پاکستان میں وادی پشاور، ٹانک کے متعدد علاقوں، ڈیرہ اسمعیل خان، بنوری اور شمالی وزیر ستان میں زراعت اور پینے کے پانی کے لیے تمام تر دار ومدار دریائے کابل پر ہے۔ بلا شبہ افغانستان میں شہتوت بند کی تعمیر سے پاکستان بڑی مقدار میں دریائے کابل کے پانی سے محروم ہو جائے گا اور دریائے سندھہ میں پانی کے بہاؤ پر بھی سنگین اثر پڑے گا۔ اگر افغانستان نے دریائے کابل پر مزید بند تعمیر کیے تو وارسک بند، پشاور، چار سدہ اور نو شہرہ کے اضلاع پانی سے محروم ہو جائیں گے اور خطرہ ہے کہ وادی پشاور سے لے کر شمالی وزیر ستان کا پورا علاقہ بنجر ہوجائے گا اور ریگستان کی صورت اختیار کر لے گا۔
دریائے کابل پر افغانستان کا مستقبل میں 12 ہائیڈو پاور اسٹیشن قائم کرنے کا منصوبہ ہے، جن سے 1177میگا واٹ بجلی حاصل کی جائے گی۔ اس منصوبہ کی تکمیل کے بعد، افغانستان دریائے کابل سے اپنی ضرورت کے لیے 4.7 MAF پانی ذخیرہ کرے گا اور نتیجہ یہ کہ پاکستان کو دریائے کابل سے چند قطرے ہی پانی مل سکیں گے۔ دفاعی ماہرین کو خطرہ ہے کہ شہتوت بند کی تعمیر میں ہندوستان کے سرمایے اور اس کے مرکزی رول کی وجہ سے افغانستان اور پاکستان کے درمیان تنازع اور شدید کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ کی صورت میں ہندوستان ایک طرف دریائے سندھ کا پانی روکنے کی کوشش کرے گا اور دوسری جانب ہندوستان دریائے کابل پر شہتوت بند سے پاکستان کو پانی سے محروم کر کے پاکستان کی معیشت کو مفلوج کر سکتا ہے۔ یوں پاکستان دو محاذوں سے نشانہ بن سکتا ہے۔ ایسی صورت میں جوہری طاقت پاکستان کے لیے اپنے دفاع کے لیے جوہری مدافعت ہی آخری حربہ رہے گا جو پورے بر صغیر کو تہہ و بالا کردے گا۔ اس لحاظ سے سرحد پار افغانستان میں دریائے کابل پر شہتوت بند ایک مہیب خطرے سے کم نہیں ہے۔
ہندوستان نے حال میں افغانستان کے صوبہ ہرات میں 290ملین ڈالر کی لاگت سے افغان ہند دوستی کا بند تعمیر کیا ہے جو پہلے سلمہ بند کہلاتا تھا اس بند کی وجہ سے ایران سخت پریشان ہے۔ پچھلے دنوں اس بند کے بارے میں ایران کے صدر روحانی نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی وجہ سے ایران کو ماحولیات کی تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ صدر روحانی نے کہا ہے کہ شمالی اور جنوبی افغانستان میں کاجکی، کرنال خان، اور افغان ہند دوستی بند کی تعمیر سے ایران کے خراسان، سیستان اور بلوچستان صوبوں پر اثر پڑے گا۔ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا افغانستان سے پانی میں شراکت کا حق ہے لیکن ہندوستان کی طرف سے ہرات میں افغان ہند دوستی بند کی تعمیر سے ایران میں پانی کا بہاو بے حد کم ہوگیا ہے۔ معلوم نہیں کہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے اس سلسلہ میں ایران کے ساتھ کوئی رابطہ کیا ہے اور افغانستان میں ہندوستان کی طرف سے بندوں کی تعمیر پر مشترکہ تشویش ظاہر کرتے ہوئے کوئی اشتراک عمل تجویز کیا ہے یا ایران کی ہم نوائی پر امریکا کی ناراضی کا خوف طاری ہے۔