ایک جج سے گفتگو

322

کئی روز پہلے ایک جج سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اپنے کمرے میں بڑے بڑے نقشے لٹکا رکھے تھے۔ ہم نے پوچھا ’’عدالتوں کے کیا حالات ہیں۔ آپ کو تو علم ہی ہوگا پاکستان میں ایک مقدمے کا فیصلہ آنے میں اوسطاً پندرہ سے بیس سال لگ جاتے ہیں‘‘۔
جج صاحب بولے ’’میں نے وفاقی حکومت کو حکم دیا ہے کہ فوری طور پر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر شروع کرے۔ واپڈ کی سربراہی میں ایک کمیٹی ان تعمیرات کو مانیٹر کرے‘‘۔
ہم نے کہا ’’آپ کے خیال میں مقدمات کے فیصلے اتنی تاخیر سے آنے کی کیا وجہ ہے؟‘‘
جج صاحب حیرت سے بولے ’’کیسی تاخیر، کم ازکم پانچ سال تو لگیں گے‘‘۔
ہم نے کہا ’’آپ کا دعویٰ ہے کہ آئندہ مقدمات اوسطاً پانچ سال میں فیصل ہوجایا کریں گے‘‘۔
بولے ’’یہ میں نے کب کہا‘‘۔
ہم نے کہا ’’ابھی تو آپ نے کہا ہے مقدمات کا فیصلہ آنے میں پانچ سال لگیں گے‘‘۔
جج صاحب غصے سے بولے ’’کون سے مقدمات‘‘۔
ہم نے کہا ’’عدالتوں میں زیر التوا مقدمات، کیا کوئی ججوں کو پوچھنے والا نہیں ہے۔ آخر لوگوں کو جلد انصاف کیسے ملے گا‘‘۔
جج صاحب بولے ’’آپ کس بارے میں پوچھ رہے ہیں؟‘‘۔
ہم نے جواب دیا ’’جو کچھ عدالتوں میں ہورہا ہے۔ ہم اس کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ لوگ انصاف کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ لوگوں کا کیا بنے گا؟‘‘
’’بننا کیا ہے۔ لوگوں کو سوچنا چاہیے۔ احتجاج کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ آخر لوگ جرم کرتے ہی کیوں ہیں‘‘۔
ہم نے عرض کیا ’’یہ تو آپ درست کہتے ہیں لیکن کیا آپ ججوں کو سمجھا نہیں سکتے‘‘۔
بولے ’’سمجھانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ یہ لوگوں کا اپنا مسئلہ ہے۔ یہی صورت حال رہی تو آئندہ سات برسوں میں پاکستان میں قحط سالی ہوگی‘‘۔
ہم نے کہا ’’جناب قحط سالی تو ہوگی جس ملک سے انصاف اٹھ جائے وہ ملک کیسے سر سبز وشاداب ہوسکتا ہے‘‘۔
بولے ’’میں آپ کی بات سمجھا نہیں‘‘۔
ہم نے کہا ’’جناب صورت حال کس قدر خوفناک ہے اس کا اندازہ آپ رانی بی بی کے مقدمے سے کرسکتے ہیں۔ رانی بی بی کو 1998میں شوہر کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس وقت اس کی عمر 15سال تھی۔ ساتھ ہی اس کے والد، والدہ، بھائی اور ایک کزن کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ عدالت نے پورے خاندان کو عمر قید کی سزا سنا دی۔ جیل میں آئے تو اپیل کی درخواست کے لیے پولیس والے نے 400سو روپے مانگے۔ وہ اتنے غریب تھے کہ ان کے پاس چار سو روپے بھی نہ تھے۔ چار سو روپے نہ ہونے کی پاداش میں رانی بی بی 19سال جیل میں رہی۔ ان کے والد پر جیل میں اتنا تشدد کیا گیا کہ وہ پانچ سال بعد جیل میں انتقال کر گئے۔ بھائی جوانی میں جیل گیا تھا اب بوڑھا اور بیمار ہوکر نکلا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے رانی بی بی کو ناکافی ثبوت اور ناکافی شواہدکی بنیاد پر 19سال بعد ’’باعزت‘‘ طور پر بری کردیا گیا۔
جج صاحب بولے ’’یہ تو بہت بری بات ہے۔ آپ صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ دنیا بھر میں 46ہزار سے زیادہ ڈیمز ہیں۔ امریکا نے ساڑھے سات ہزار، بھارت نے ساڑھے چار ہزار اور چین نے بائیس ڈیمز بنائے جب کہ ورلڈ بینک اور کینیڈا مدد نہ کرتے تو پاکستان میں یہ ایک دو ڈیم بھی نہ ہوتا۔‘‘
ہم نے کہا ’’جناب آپ کس بارے میں بات کررہے ہیں۔‘‘
بولے ’’آپ کس بارے میں پوچھ رہے ہیں؟‘‘
ہم نے کہا ’’جناب عدلیہ کی صورت حال بہت خراب ہے۔ جنوری 2018 تک کے اعداد وشمار کے مطابق عدالت عظمیٰ میں 38ہزار سے زاید مقدمات اپنی تقدیر کو رو رہے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد سب سے زیادہ ہے جو 1لاکھ 50ہزار سے اوپر ہے۔ دوسرے نمبر پر سندھ ہائی کورٹ ہے جہاں یہ تعداد 94ہزار ہے۔ پشاور ہائی کورٹ میں 30ہزار جب کہ بلوچستان ہائی کورٹ میں 6ہزار مقدمات کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں یہ تعداد 16ہزار ہے۔‘‘
بولے ’’ہمیں جذباتی ہونے کے بجائے ٹھنڈے دل سے صورت حال پر غور کرنا ہوگا۔ دیکھنا ہوگا کہ معاملات یہاں تک کیسے پہنچے۔ پاکستان کو پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ ڈیموں کے بغیر ملک کی بقا مشکل ہوجائے گی۔ جنگی بنیادوں پر پانی کا مسئلہ حل نہ ہوا تو بحران شدید ہو جائے گا۔‘‘
ہم نے کہا ’’جناب آپ ڈیموں کے معاملے کو بھی دیکھ لیجیے گا لیکن ساتھ ہی اگر ایک نظر نظام عدل پر بھی پڑ جائے تو‘‘۔
بولے ’’میں اس صورت حال سے سخت پریشان ہوں۔ اس بارے میں ہم نے بڑی بے حسی کا ثبوت دیا ہے۔‘‘
ہم نے خوش ہوکر کہا ’’جناب تو پھر میں امید رکھوں کہ آپ زیر التوا مقدمات کی جلد شنوائی کے لیے کوئی طریقہ کار وضع کریں گے۔‘‘
بولے ’’سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوا ہے‘‘
ہم نے جواب دیا ’’جناب ماضی میں جو کچھ ہوا اس پر مٹی ڈالیے۔ یہ دیکھیے اس وقت اس مسئلے سے کیسے نمٹا جاسکتا ہے۔‘‘
بولے ’’پانی وبجلی کے حکام نے عدالت کو بتایا ہے کہ 2001 سے پانی کی دستیابی میں بتدریج کمی آرہی ہے رواں سال پانی کی دستیابی پچھلے برسوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ہمیں ہر دس سال بعد ایک بڑے ڈیم کی ضرورت ہے۔‘‘
ہم نے کہا ’’جناب جو لوگ معاملات سمجھتے ہیں ان کا خیال ہے کہ ڈیم کے معاملات آپ حکومت اور متعلقہ حکام پر چھوڑیے۔ آپ کا کام ڈیم بنانا نہیں لوگوں کو انصاف فراہم کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ سے عدل نہ کرنے کے بارے میں پوچھیں گے، عدالتی نظام کو ٹھیک نہ کرنے کے بارے میں پوچھیں گے۔ ڈیم بنانے کے بارے میں نہیں۔‘‘
بولے ’’بات دراصل یہ ہے کہ ہم لوگوں میں قومی جذبہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ اگر ہر پاکستانی ڈیم فنڈ میں دل کھول کر حصہ لے تو دیکھیے اگلے پانچ سال میں ہم ایک نہیں دو ڈیم بنا سکتے ہیں‘‘۔
ہم نے زچ ہوکر کہا ’’جناب اپنی پسند کا کوئی شعر عنایت فرمائیں گے‘‘۔
بولے ’’پانی پانی کر گئی مجھ کو۔۔۔‘‘
اس سے پہلے کہ وہ شعر مکمل کرتے ہم وہاں سے اٹھ گئے۔ ان کے رویے سے ہم ویسے ہی پانی پانی ہورہے تھے۔