نوجوان ڈاکٹروں کی سنگدلی

323

پاکستان میں پولیس گردی تو اب بھی جاری ہے لیکن وکلا گردی اور ڈاکٹر گردی بھی بڑی تیزی سے زور پکڑ رہی ہے۔ ان دونوں طبقات کی،جو معاشرے میں، بڑے معزز سمجھے جاتے ہیں، من مانی عوام کے لیے ایک عذاب ہے۔ پولیس تو پھر بھی رشوت لے کر آنکھیں بند کرلیتی ہے لیکن جب وکلا عدالتوں کا بائیکاٹ کرتے ہیں تو سائلین ر ل جاتے ہیں۔ عدالتی نظام ویسے ہی سست روی کا شکارہے اس پر وکلا بائیکاٹ کردیں تو انصاف کا عمل مزید تاخیر کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی معاملہ ڈاکٹروں کا ہے۔ ہفتہ کو پورے پنجاب کے متعدد اسپتالوں میں نوجوان ڈاکٹروں نے مشتعل ہو کر او پی ڈی کا بائیکاٹ کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ مختلف اسپتالوں میں نوجوان ڈاکٹروں سے زیادتی کی گئی ہے۔ ممکن ہے کہ ان کے الزامات میں وزن ہو لیکن ان مریضوں کا کیا قصور ہے جو دور درواز سے اپنے درد کی دوا لینے اور اپنا علاج کروانے آتے ہیں، ان ڈاکٹروں کو مسیحا سمجھ کر۔ جب کوئی ایم بی بی ایس کر کے ڈاکٹر بنتا ہے تو اس سے ایک حلف لیا جاتا ہے کہ وہ سب کچھ چھوڑ کر اور ہر معاملے کو نظر انداز کر کے سب سے پہلے مریض پر توجہ دے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ اسپتالوں سے مایوس لوٹنے والوں میں کئی معمر افراد، عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں ۔ مریضوں کا علاج نہ کرنے والے ڈاکٹر تو نہیں کہلائے جاسکتے ۔ معاشرے میں ایسے ڈاکٹر کسی احترام کے مستحق نہیں۔ لیکن چونکہ ینگ ڈاکٹرزکے نام سے منظم جماعت بن چکی ہے چنانچہ حکومتیں بھی ان کے سامنے جھکنے پر مجبور ہیں ۔ یہ طلبہ یونینیں نہیں جن پر برسوں سے پابندی ہے۔ ڈاکٹروں کو احتجاج کا معقول طریقہ تلاش کرنا چاہیے۔