دولت پر سیاست کا پردہ ختم ہونے کا موسم

293

آخر کار قدرت کی دراز رسی کھنچ جانے کا لمحہ آن پہنچا اور سیاست کے پردے کے پیچھے دولت کا کھیل کھیلنے والوں کا یوم حساب قریب آنے کے آثار پیدا ہوگئے۔ برطانیہ اور پاکستان کے درمیان قومی دولت لوٹنے کے حوالے سے ایک اہم معاہدہ ہوگیا ہے جو آگے چل کر مطلوب افراد کی حوالگی کے معاہدے پر منتج ہوگا۔ پاکستانی نژاد برطانوی وزیر داخلہ ساجد جاوید نے وزیر قانون فروغ نسیم اور وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کی موجودگی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دوٹوک انداز میں اعلان کیا کہ پاکستان اور برطانیہ میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے انصاف واحتساب کی شراکت کا آغاز ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم بدعنوانی کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں خواہ یہ کہیں بھی ہو۔ ہم اس کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کرکام کرنے اور کریک ڈاؤن کرنے کے لیے تیار ہیں۔ برطانیہ دنیا بھر سے عوام کے ٹیکسوں کو چرا کر دولت جمع کرنے کا ایک بڑا اڈہ ہے جہاں عرب وعجم اور مشرقی اور مغربی یورپ تک طاقتور لوگوں نے عوام کی دولت عوام کی نظروں سے چھپا کر مختلف کاروباری مقاصد پر لگا رکھی ہے۔ پاکستان بھی انہی بدقسمت ملکوں میں شامل ہے۔ برطانیہ کے ساتھ یہ معاہدہ بارش کا پہلا قطرہ ہے جس کے بعد اور بہت سے ملکوں میں خفیہ تجوریاں خود بول پڑیں گی، دولت کے پہاڑوں کو زبان مل جائے گی۔ تجوریوں میں بند اشرفیاں خود بخود کھنک کر دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائیں گی۔ اب برطانیہ کے بعد کئی ملک خود پاکستان کے ساتھ معاہدات کے لیے آگے بڑھیں گے۔
خدا جانے وہ کون سا زمانہ اور کون لوگ تھے جو سیاست کو عبادت اور خدمت سمجھتے اور اس کا برملا اظہار کرتے تھے۔ مدت ہوئی پاکستان میں سیاست کو عبادت سمجھنا تو درکنا کوئی عبادت کہنے کو بھی تیار نہیں۔ اس کے برعکس سیاست کو دولت اور شہرت کا دوسرا نام بنا دیا گیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سنجیدہ اور باصلاحیت لوگ سیاست میں قدم رکھنے سے گریز کرتے رہے جو پہلے سے اس دشت میں موجود تھے ایک ایک کرکے یا تو جہانی فانی سے کوچ کر گئے یا رفتہ رفتہ بدلتے ہوئے حالات میں اجنبی اور غیر موثر ہوتے چلے گئے۔ اس خلا نے ہمارے بحرانوں کو کچھ مزیداس انداز سے بڑھا دیا کہ خالص کاروباری ذہنیت نے سیاست پر غلبہ پالیا۔ بازار سیاست ان لوگوں کی گزرگاہ اور آماج گاہ بن گیا جو سیاست کو دولت کی عینک سے دیکھنے کے عادی تھے۔ سیاست دان تو معاشرے کا رول ماڈل کہلاتے ہیں جو عوامی زندگی کا میعار ترتیب دیتے ہیں۔ ان کے مشاغل، لباس، رہن سہن، طرز گفتگو معاشرے میں رواج بن کر نیچے تک سرایت کر جاتا ہے۔ سیاست اور قیادت کے شعبے میں زوال پزیر رجحان ایک ہمہ گیر اخلاقی اور سماجی بحران کی شکل اختیار کرگیا۔ سول اور خاکی بیوروکریسی بھی اس بحران کی لپیٹ میں آگئی۔ کرپشن معاشرے کا عمومی چلن بن کر رہ گئی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ضیاء دور میں پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر اور بھٹو دور کے آئی جی پی راؤ عبدالرشید نے اس دور میں ایک انٹرویو میں حالات کی عکاسی ان الفاظ میں کی تھی کہ ’’ابھی قوم کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کرپشن بری چیز ہے روکنا اگلا مرحلہ ہے فی الحال قوم کرپشن کو برا سمجھنے کو بھی تیار نہیں‘‘۔ یہ ایک ہمہ گیر زوال اور بے حسی کی ٹھیک ٹھیک عکاسی تھی۔
کرپشن کو برا سمجھنے کے بجائے گزشتہ دو تین دہائیوں میں جس شخص، جماعت اور گروہ نے کرپشن روکنے کا نعرہ بلند کیا اسے طعن وتشنیع کا طوفان برپا کرکے معاشرے کا ایک مضحکہ خیزکردار بنا دیا جاتا۔ بااثر طبقات کے مفادات کا نگہبان میڈیا ایسے کردار کو مجنون اور ذہنی عدم توازن کا ایسا کردار بنا کر پیش کرتا کہ جو عملی اور ذہنی طور ہر اس قدر فارغ ہے کہ کرپشن کرپشن کی مالا جپنے کے سوا کوئی کام نہیں۔ گویا اس حوالے سے خرد کا نام جنوں اور جنوں کو خرد رکھ دیا گیا۔ بدعنوان عناصر پر جب بھی ہاتھ ڈالا گیا تو انہوں نے اسے سیاسی انتقام کا نام دیا گیا اور یوں وہ مظلومیت کی چادر تان کر سامنے آتے رہے۔ ایک جملہ جو بدنامی کی حد تک مشہور ہوا یہ تھا کہ سیاست دانوں اور حکمرانوں کا احتساب کرنے کا حق صرف عوام کو ہے اور پانچ سال بعد انتخابات میں عوام سیاست دانوں کا احتساب کرتے ہیں۔ یہ بودی اور ناقص تاویل اور دلیل قانون سے بچنے کے لیے استعمال ہوتی رہی۔ اس دلیل میں وزن ہوتا تو آج ملائیشیا کے بزرگ مدبر مہاتر محمد ایک بار پھر وزیر اعظم بننے کے بعد اپنے پیش رو نجیب رزاق سے یہ نہ پوچھ رہے ہوتے کہ اثاثے کیسے بنے؟ نجیب رزاق بدعنوانی کے الزامات میں عدالتوں میں مارے مارے نہ پھر رہے ہوتے۔ آج مصر کے تاحیات سمجھے جانے والے صدر حسنی مبارک اپنی دولت کا حساب مانگے جانے کے عذاب کا سامنا نہ کر رہے ہوتے۔
ہمارے ہاں ایک صاحب کے بارے میں ان کو قریب سے جاننے والے انگریزی اخبار سے وابستہ صحافی نے انکشاف کیا تھا کہ جب بھی وہ وزیر اعظم ہاؤس میں جاتے تو یہ صاحب کچھ نہ ہونے کے باوجود پارٹیوں کے جلو میں کمیشن اور کاروباری معاملات طے کر رہے ہوتے۔ بعد میں ان کے بارے میں کہا جاتا کہ ملاقات کا وقت طے کرانے والے وفود اور شخصیات سے پیسے وصول کرتے تھے۔ زوال کے ان لمحوں میں ایک تو پاکستان کا برین ڈرین ہوا۔ ذہین اور فطری طور پر دیانت پسند لوگ اچھے اور دیانت داری پر یقین رکھنے والے ملکوں کو سدھار گئے۔ دوسرایہ ہوا کہ پاکستان کا پیسہ مختلف طریقوں سے ملک سے باہر منتقل ہو کر بینکوں کی تجوریوں اور رہائشی اور کاروباری محلات کی شکل اختیار کر گیا۔ لندن، دوبئی، سویزر لینڈ، ہانک کانگ، ملائیشیا، جنوبی افریقا سمیت کئی ملک اس دولت کی حفاظت اور استعمال کے لیے جنت بن کر رہ گئے۔ اب بدلے ہوئے حالات میں لوٹی ہوئی دولت کے انبار کو سیاست کے پردے میں چھپانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی کیوں کہ زمانے کی ہوا اور چلن بدل رہا ہے۔ دنیا میں کرپشن کو چھپانے کے لیے ماحول اور ملکوں کی فضاء موافق اور دوستانہ نہیں رہی۔ دنیا میں بدعنوانی کے خلاف رائے عامہ ہموار ہو رہی ہے اور قومیں اور ملک کرپشن کے حوالے سے سخت قوانین بنا رہے ہیں۔ ہم اپنی روایتی مصلحت پسندی سے دوبارہ کام لے سکتے ہیں مگر عالمی قوانین اور رویوں کے باعث اب ہماری لوٹی ہوئی دولت کو خودبخود زبان مل رہی ہے اور وہ خود کار الارم کی طرح خود اپنے ہونے کا احساس دلانے کو ہے۔ اب شاید کوئی بھی احتسابی عمل کو سیاسی انتقام کا نام دینے کے قابل بھی نہ رہے۔