نئے بلدیاتی نظام کے لیے جلدی کیوں؟

548

وفاقی حکومت نے 48 گھنٹوں میں نیا بلدیاتی نظام حتمی شکل میں سامنے لانے کی ہدایت کی ہے۔ 48 میں سے 24 گھنٹے گزرچکے جب تک یہ سطور شائع ہوکر پڑھی جارہی ہوں گی۔ شاید اس وقت تک حکومت کی ہدایات کے مطابق بلدیاتی نظام کو حتمی شکل دی جاچکی ہوگی۔ وزیراعظم کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کے اجلاس میں یہ ہدایات جاری کی گئیں۔ اس کا مقصد سمجھ سے بالاتر ہے۔ وزیراعظم نے تو کہاہے کہ اس فیصلے کا مقصد یہ ہے کہ بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو حکومت کا جوابدہ بھی بنایا جائے گا۔ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی ہماری حکومت کا سب سے اہم ایجنڈا ہے۔ عوامی مسائل صحیح معنوں میں مقامی سطح پر حل ہوں گے۔ اس جلد بازی کی کیا وجہ ہے یہ بھی نہیں بتایا گیا اورکیا یہ ممکن ہے کہ کوئی نیا نظام لایا جارہاہو اور 48 گھنٹے میں اس کے خدوخال سامنے آجائیں ایسا لگ رہا ہے کہ پہلے سے طے شدہ کوئی نظام ہے جو نئے نظام کے نام پر پیش کیا جائے گا۔ اب تو پارلیمنٹ میں منظوری کوئی مسئلہ نہیں ہے حکومت جو پیش کرے گی اتحادی جماعتیں اور اس کی فرینڈلی اپوزیشن مل کر اسے منظور کرالیں گی۔ لہٰذا پارلیمنٹ سے منظوری کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ اس بات کو معلوم کیا جائے کہ 48 گھنٹے کی ایکسپریس تیاری کیوں کی گئی ہے۔ بلدیات کا نظام وہ نظام ہے جس پر پورے ملک کے عوام کے روز مرہ معاملات کا انحصار ہوتا ہے۔ گٹر، سڑک، پارک، فٹ پاتھ، پانی کی فراہمی، صفائی، کچرا اسناد کا اجرا، تصدیق وغیرہ۔ بے تحاشا کام ہیں جو بلدیات کے نمائندے کرتے ہیں۔ یہ بات ابھی سے نہیں کہی جاسکتی کہ معاملات فنڈز کے ہیں لیکن جس طرح سندھ میں حکومت نے بلدیات کا پورا نظام صوبائی حکومت نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اصل مقصد فنڈز پر کنٹرول تھا۔ فی الحال پنجاب میں بلدیات پر مسلم لیگی قابض ہیں اور اگلے دو بجٹ ان کے پاس ہیں۔ لہٰذا ان سے بجٹ اپنے پاس منتقل کرنے کا کوئی نہ کوئی راستہ اختیار کیا جائے گا، تاکہ فنڈز پر کنٹرول حکومت کے پاس آجائے۔ ورنہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ بلدیاتی نظام میں تمام اختیارات نچلی سطح پر ہوتے ہیں۔ اب اس سے نچلی سطح کیا ہوگی جو آج کل ہے۔ جب ایوب خان نے بی ڈی ممبرز کا نظام شروع کیا تھا تو اس کا مقصد اختیارات بی ڈی ممبرز کو دے کر ان کے ذریعے اپنا انتخاب کرانا تھا۔ پھر جنرل ضیا الحق کو ضرورت پڑی کہ لوگوں کو جمہوریت کے مزے مل جائیں اور وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے نچلی سطح تک محدود رہیں۔ یہی کام جنرل پرویز مشرف نے کیا۔ تینوں جرنیلوں نے اپنی مرضی کے بلدیاتی نظام رائج کیے۔ ہر مرتبہ یہی بتایاگیا کہ مسائل نچلی سطح پر حل ہوں گے، اختیارات کو نچلی سطح تک لے جایا گیا ہے۔ جنرل پرویز نے بھی یہی کیا تھا اور جنرل ضیا نے بھی۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ پہلے جو کام جرنیل کرتے رہے ہیں وہ کام اب سول حکومت کرنے جارہی ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ بلدیاتی نظام تبدیل کیا جائے موجودہ بلدیاتی نظام کے نقائص سامنے لائے جائیں اور وہ اسباب بیان کیے جائیں کہ کیوں یہ نظام تبدیل کرنے جارہے ہیں۔ بہر حال اب وقت زیادہ نہیں حکومت کو 100 دن میں ایسے کام کرنے ہیں کہ وہ ترقی کی راہ پر نظر آنے لگے۔ جہاں تک فنڈز کی شفافیت کو یقینی بنانے کا تعلق ہے تو وہ اسی وقت یقینی بنے گی جب بلدیاتی فنڈز اتحادیوں کے ہاتھ لگیں گے۔ پنجاب کے اتحادی یوں ہی تو ساتھ نہیں آئے ہیں انہیں بھی تو عوام کی خدمت کرنی ہے اور یہ خدمت فنڈز تک پہنچے بغیر ممکن نہیں ہے۔ سندھ میں بھی نچلی سطح تک اختیارات منتقل ہوچکے ہیں۔ ان اختیارات کی منتقلی کے باوجود صفائی ہورہی ہے نہ کچرا اٹھ رہا ہے۔ پارک سرسبز ہیں نہ سڑکوں کی مرمت ہورہی ہے اور نہ ہی سڑکوں پر روشنی ہورہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سارے فنڈز صوبائی حکومت کے پاس چلے گئے ہیں۔ اختیارات نچلی سطح پر اور فنڈز بالائی سطح پر منتقل ہوگئے ہیں۔ مسائل حل کیسے ہوں گے۔