چھُٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا

356

 

 

صاحبو! ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ احتساب عدالت نے میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی، داماد کو جو سزا دی تھی وہ قانون کے عین مطابق تھی یا اس میں کسی قانونی مفروضے سے کام لیا گیا تھا اور استغاثہ ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا تھا۔ یہ کام اعلیٰ عدالتوں کا ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس سلسلے میں اپیلوں کی سماعت کے بعد مختصر فیصلہ سناتے ہوئے احتساب عدالت کی سزا معطل کردی ہے اور تینوں کو رہا کردیا ہے اور یہ تینوں افراد اڈیالہ جیل سے رہا ہونے کے بعد جاتی امرا پہنچ گئے ہیں اور اپنی رہائی کا جشن منارہے ہیں۔ جاتی امرا کا اداس ماحول خوشیوں سے بھر گیا ہے اور مبارک باد دینے والوں کا تانتا بندھا ہے۔ البتہ اڈیالہ جیل پر اداسی اور بے رونقی چھا گئی ہے۔ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز مرحومہ بیگم کلثوم نواز کی عیادت و تیمارداری کے لیے لندن میں تھے کہ احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں فیصلہ سنا دیا جب بیگم صاحبہ کی حالت تشویشناک تھی۔ وہ کومے میں تھیں اور دونوں کے لیے لندن میں رکنے کا جواز موجود تھا لیکن انہوں نے پاکستان واپس آنے اور گرفتاری دینے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ پاکستان واپس آئے تو اسلام آباد ائر پورٹ ہی پر انہیں گرفتار کرکے اڈیالہ جیل پہنچادیا گیا جب کہ نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) صفدر جو پاکستان میں تھے پہلے ہی اپنی گرفتاری پیش کرچکے تھے۔ اڈیالہ جیل کو اس سے پہلے بھی متعدد معزز مہمانوں کی میزبانی کا شرف حاصل ہوچکا ہے لیکن نواز شریف کی میزبانی اس اعتبار سے منفرد تھی کہ وہ تین بار ملک کے وزیراعظم رہ چکے تھے وہ ملک کے مقبول سیاستدان تھے اور کم و بیش تیس سال سے حکومت میں تھے لیکن عدالت نے انہیں سزا کسی سیاسی تنازع پر نہیں کرپشن کی بنیاد پر دی تھی، انہیں اپنے وسائل سے بڑھ کر دولت بنانے، اس دولت کو ناجائز طور پر لندن منتقل کرنے اور اس سے قیمتی جائداد خریدنے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ بظاہر یہ ساری باتیں اندازوں پر مبنی تھیں لیکن خود نواز شریف بھی اپنی بے گناہی کا کوئی ثبوت عدالت میں پیش نہیں کرسکے تھے۔ بہرکیف میاں نواز شریف، ان کی صاحبزادی اور داماد اڈیالہ جیل کیا آئے یہاں بھی رونق لگ گئی۔ ملاقاتیوں کا ایک ہجوم جیل کے گیٹ پر جمع ہوگیا اور میاں صاحب سے ملنے پر اصرار کرنے لگا، جیل کی انتظامیہ نے ہجوم کو بتایا کہ مذکورہ قیدیوں سے ہفتے میں ایک دن ملاقات کا مقرر ہے۔ اسی دن ملاقات ہوسکتی ہے اس کے لیے پہلے سے درخواست دینا ہوگی اور جیل انتظامیہ ملنے والوں کی فہرست مرتب کرکے انہیں محدود وقت کے لیے ملاقات کی اجازت دے گی اور یہ ملاقات جیل سپرنٹنڈنٹ کے دفتر سے متصل کامن روم میں کرائی جائے گی۔ چناں چہ جیل قواعد کے مطابق ہفتہ وار ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مسلم لیگ (ن) کے تمام لیڈر اپنے قائد سے ملاقات کے لیے جیل میں حاضری دینے لگے، انہیں یقین تھا کہ ان کا قائد بے قصور ہے اور اسے اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے یہ ڈراما رچایا گیا ہے۔ رائے عامہ بھی منقسم تھی۔ کچھ لوگ نواز شریف کو بے قصور اور کچھ انہیں کرپشن کا سنگین مجرم قرار دے رہے تھے، البتہ اڈیالہ جیل میں میلا لگا ہوا تھا۔ صحافیوں اور کالم نگاروں نے بھی اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور میاں صاحب سے ملاقات کرکے جیل کی منظر نگاری کرنے لگے۔ ان کالم نگاروں نے اپنے قارئین کو بتایا کہ میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی کا حوصلہ بلند ہے وہ ملاقاتیوں کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملتے اور انہیں لطیفے سناتے ہیں اور یہ کہ میاں صاحب نے خلاف عادت کتابوں کا مطالعہ بھی شروع کردیا ہے۔ ایک صحافی نے تو یہ لطیفہ بھی سنایا تھا کہ میاں صاحب اپنی روداد اسیری لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایک قیمتی قلم بھی منگوالیا ہے اور اسے انگلیوں کے درمیان پکڑنے کی مشق کررہے ہیں لیکن قسمت نے یاوری نہ کی اور پروانہ رہائی آگیا۔ ورنہ انہیں مہلت مل جاتی اور وہ اپنی آپ بیتی قلمبند کرتے تو بڑے معرکے کی چیز ہوتی اور بہت سی پگڑیوں کے بل کھل جاتے۔ بہرکیف اب میاں نواز شریف جاتی امرا میں ہیں اور اپنی رہائی کی مبارک بادیں وصول کررہے ہیں۔ شاعر نے اس واقعے سے بہت پہلے کہا تھا:
نہ پھول تھے نہ چمن تھا نہ آشیانہ تھا
چھُٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا
لیکن جاتی امرا میں ایسی کوئی بات نہیں وہاں پھول بھی ہیں، چمن بھی ہے اور آشیانہ بھی۔ البتہ اڈیالہ جیل کے اسیر چھوٹے ہیں تو زمانہ بدلا ہوا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب جاتی امرا کو وزیراعظم کے کیمپ آفس کا درجہ حاصل تھا۔ میاں نواز شریف یوں تو وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں رہتے تھے لیکن ویک اینڈ جاتی امرا لاہور میں گزارا کرتے تھے۔ وہ جمعہ کی شام بذریعہ خصوصی طیارہ لاہور روانہ ہوتے تو لاہور ائرپورٹ سے جاتی امرا تک خصوصی روٹ لگ جاتا اور جب تک شاہی سواری جاتی امرا نہ پہنچ جاتی سڑک پر عام لوگوں کی آمدورفت بند رہتی۔ لیکن 19 ستمبر کو جب میاں صاحب رہا ہو کر خصوصی طیارے کے ذریعے لاہور پہنچے تو سڑک پر ٹریفک معمول کے مطابق رواں دواں رہی اور میاں صاحب بھی اپنی بیٹی اور داماد کے ہمراہ بخیر و عافیت جاتی امرا پہنچ گئے۔ جاتی امرا کا وزیراعظم کیمپ آفس کا اسٹیٹس ختم ہوگیا۔ یہ تو ہونا ہی تھا لیکن جن ’’ظالموں‘‘ نے اقتدار پر قبضہ کیا ہے انہوں نے وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد کا حلیہ بھی بگاڑ دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نہ ہم وزیراعظم ہاؤس میں رہیں گے نہ کسی کو رہنے دیں گے۔ وزیراعظم ہاؤس میں خدمت پر مامور پانچ سو ملازمین کو فارغ کردیا گیا ہے، لگژری گاڑیاں نیلام کردی گئی ہیں، ہیلی کاپٹروں کو بھی ٹھکانے لگادیا ہے اور تو اور وزیراعظم ہاؤس کے مویشی خانہ سے آٹھ عدد بھینسیں بھی برآمد کرلی گئی ہیں جن کی بولی لگائی جارہی ہے۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے تھے اگر ایسا ہے تو انہوں نے خالص دودھ پینے کے لیے بھینسیں بھی اپنی جیب سے خریدی ہوں گی۔ دیانتداری کا تقاضا تو یہی ہے کہ بھینسیں ایک کنٹینر میں ڈال کر جاتی امرا پہنچادی جائیں لیکن اگر یہ بھینسیں سرکاری خزانے سے خریدی گئی تھیں تو سرکاری خزانے کے غلط استعمال پر نواز شریف کے خلاف ایک اور ریفرنس بنتا ہے اور نیب کو چاہیے کہ وہ بھینس ریفرنس دائر کردے۔ لیجیے صاحب اس بحث میں ہم یہ تو بھول ہی گئے کہ وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنایا جارہا ہے اگر کل کلاں کو میاں نواز شریف کی قسمت نے پلٹا کھایا اور وہ چوتھی بار وزیراعظم بن گئے تو کہاں رہیں گے۔ کیا ان کے لیے نیا وزیراعظم ہاؤس تعمیر کرنا پڑے گا؟ اس کا جواب عمران خان کی حکومت کو ابھی سے سوچ لینا چاہیے۔