پاکستان کے بارے میں مودی کی پالیسی خلفشار کا شکار؟

484

 

 

پاکستان کے بارے میں ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کی پالیسی بظاہر خلفشار کا شکار نظر آتی ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ اس خلفشار کے پیچھے اصل مقاصد کیا ہیں؟۔ عمران خان نے انتخابی جیت کے فوراً بعد اعلان کیا تھا کہ پاکستان، ہندوستان سے تعلقات بہتر بنانے کا خواہاں ہے اور اگر ہندوستان نے اس راہ میں ایک قدم بڑھایا تو پاکستان دو قدم بڑھائے گا۔
نریندر مودی نے فی الفور، عمران خان کو ان کی انتخابی فتح پر مبارک باد کا خط بھیجا جس میں انہوں نے بامعنی اور تعمیری تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس کے جواب میں وزیر اعظم عمران خان نے نریندر مودی کو لکھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کا وہ سلسلہ دوبارہ شروع کیا جائے جو دسمبر 2015 کو ہندوستان نے پٹھان کوٹ پر حملہ کا پاکستان پر الزام لگا کر منقطع کر دیا تھا۔ عمران خان نے اپنے خط میں کشمیر کے مسئلے کا ذکر کیا تھا اور کہا تھا کہ پاکستان، دہشت گردی کے مسئلے پر بھی بات چیت کے لیے آمادہ ہے۔ اس کے جواب میں ہندوستان کی حکومت نے فی الفور جمعرات 20 ستمبر کو پاکستان کو مطلع کیا تھا کہ وہ نیویارک میں دونوں ملکوں کے وزارء خارجہ کے درمیان ملاقات کے لیے تیار ہے۔ لیکن چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر پر اسرار انداز سے حالات نے اچانک پلٹا کھایا اور ہندوستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے اعلان کیا کہ ہندوستان نے وزراء خارجہ کی ملاقات منسوخ کردی ہے۔ اس فیصلہ کے جواز میں پاکستان کے رینجرز پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے جموں میں ہندوستان کے ایک پولیس ہیڈ کانسٹبل کو قتل کر کے اس کا گلا کاٹ دیا ہے۔ اور اسی کے ساتھ اس پر احتجاج کیا کہ پاکستان نے کشمیری حریت پسند شہید برھان وانی کی یاد میں ڈاک کے بیس ٹکٹ جاری کیے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام آباد اپنی راہ تبدیل نہیں کرے گا اور بقول ترجمان کے اسلام آباد کے شری پروپیگنڈے نے نئے وزیر اعظم عمران خان کا حقیقی چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔
یہ بات بے حد اہم ہے کہ ہندوستانی ترجمان نے نیویارک میں سشما سوراج اور شاہ محمود قریشی کی ملاقات کی منسوخی کا اعلان جمعہ 21 ستمبر کو کیا اور جواز جموں کے مبینہ واقعہ کو بنایا گیا جب کہ جموں کا مبینہ واقعہ بتایا جاتا ہے جمعرات 20 ستمبر کی دوپہر کو ہوا تھا، اور اسی روز ہندوستان نے نیویارک کی ملاقات کا اعلان کیا تھا۔ ہندوستان کے میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ جمعرات 20 ستمبر کی دوپہر کو پاکستان کی رینجرز کے اہل کاروں نے ہندوستان کی بارڈر سیکورٹی فورس کو ٹیلی فون کر کے تردید کی تھی کہ ہیڈ کانسٹبل نریندر سنگھ کے قتل میں رینجرز کا کوئی ہاتھ ہے۔ نیو یارک کی ملاقات کی منسوخی کے سلسلے میں ہندوستان کی منطق اس لحاظ سے بے حد عجیب و غریب نظر آتی ہے کہ پہلے تو جس روز جموں کا مبینہ واقعہ پیش آیا اسی روز ہندوستان نے نیویارک میں وزراء خارجہ کی ملاقات پر رضا مندی ظاہر کی، دوسرے ملاقات کی منسوخی کے سلسلے میں ہندوستان نے پاکستان میں برھان وانی کی شہادت کی یاد میں ڈاک کے ٹکٹوں کے اجراء کا بہانہ بنایا۔ حقیقت میں ڈاک کے یہ ٹکٹ 24 جولائی کو جاری ہوئے تھے۔ اس وقت ہندوستان کی طرف سے کوئی احتجاج نہیں کیا گیا تھا اور نہ اس وقت کوئی احتجاج کیا گیا تھا جب نریندر مودی نے عمران خان کو ان کی فتح پر مبارک باد پیش کی تھی اور دونوں ملکوں کے وزراء خارجہ کی نیو یارک میں ملاقات پر ہندوستان نے رضا مندی ظاہر کی تھی۔ یہ خلفشار ہی نہیں تو اور کیا ہے جو نریندر مودی کی پاکستان کے بارے میں پالیسی کے سلسلے میں عیاں ہے۔ یہی نریندر مودی تھے جو ممبئی کے حملہ کے باوجود جس کا الزام پاکستان کی حکومت پر لگایا جاتا ہے اور اس کے بعد پاکستان سے تمام تر روابط منقطع کر دیے گئے تھے، 2015 میں کرسمس کے دن، نواز شریف کو ان کی سالگرہ پر مبارک باد پیش کرنے اور ان کی نواسی کی شادی میں شرکت کے لیے اچانک کابل سے دلی جاتے ہوئے راستہ میں لاھور میں اترے تھے۔ پھر دوستی کے اس اظہار کے فوراً بعد پٹھان کوٹ پر حملہ کا بہانہ بنا کر مودی سرکار نے پاکستان سے تمام روابط منقطع کردیے اور لائین آف کنٹرول کے پار سرجیکل آپریشن کے نام سے پاکستان پر فوجی حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس دوران نریندر مودی کے قومی سلامتی کے مشیر، اجیت دووال نے کھلم کھلا پاکستان کو خبردار کیا تھا کہ بقول ان کے پاکستان ممبئی پر ایک حملہ کر سکتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں پاکستان بلوچستان کو ہاتھ سے کھو سکتا ہے۔ یہ دھمکی دراصل ہندوستان کے جاسوس کلبھوشن یادو کی بلوچستان میں بڑے پیمانے پر تخریب کاری کی کارروائیوں کے بل پر دی جارہی تھی۔ ان کارروائیوں کو چھپانے کے لیے نریندر مودی کی حکومت نے بڑے بھر پور انداز سے پوری دنیا میں پاکستان کو دہشت گردی کو شہہ دینے والا ملک قرار دینے کی مہم شروع کی اور اعلان کیا کہ جب تک پاکستان سرحد پار دہشت گردی کو فروغ دیتا رہے گا، ہندوستان پاکستان سے کسی سطح پر بات چیت نہیں کرے گا۔ اسی کے ساتھ نریندر مودی نے پاکستان کو سارک سے نکال کر نہ صرف جنوبی ایشیاء میں تنہا کرنے کی کوشش کی بلکہ افغانستان میں بڑے پیمانے پر بندوں اور شاہراہوں کی تعمیر کے پروگرام کے ذریعے اقتصادی، فوجی اور سیاسی طور پر اپنا اثر جمانے اور پاکستان کے خلاف محاذ قائم کرنے کی حکمت عملی شروع کی۔ خلیج کی ریاستوں خاص طور پر متحدہ عرب امارات اور عُمان میں ہندوستان اپنا فوجی تسلط قائم کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اس سال فروری میں ہندوستان نے عُمان کے ساتھ اہم فوجی معاہدے کیے ہیں جن کے تحت الدقم کی بندر گاہ میں ہندوستان کی بحریہ اور فضائیہ کو اڈوں کی سہولت حاصل ہوگی۔ الدقم بندر گاہ عین گوادر کی بندر گاہ کے سامنے واقع ہے جہاں سے اس پورے علاقہ میں ہندوستان کی فضائیہ اور بحریہ کڑی نگاہ رکھے گی۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کے پیچھے ہندوستا ن کو امریکا کی بھی آشیر باد حاصل ہے کیوں کہ وہ چاہتا ہے کہ اس علاقے میں ہندوستان کی بحریہ اور فضائیہ چین کی بحری موجودگی پر چوکسی رکھے۔ پاکستان کا محاصرہ کرنے اسے دھمکیاں دینے اور پاکستان پر دہشت گردی کو شہہ دینے کا الزام لگانے کے ساتھ اچانک پاکستان کے ساتھ بات چیت پر آمادگی کے اظہار اور پھر چوبیس گھنٹے کے اندر اندر بات چیت کی منسوخی کے پیش نظر بظاہر پاکستان کے بارے میں نریندر مودی کی پالیسی خلفشار کا شکار دکھائی دیتی ہے لیکن بیش تر مبصرین کی رائے ہے کہ یہ خلفشار دکھاوے کا ہے اور اس کے پس پشت پاکستان کے خلاف بڑی کاری حکمت عملی پوشیدہ ہے۔