سرکاری اراضی کی غیر قانونی الاٹمنٹ، اینٹی کرپشن نے بھی تحقیقات شروع کردی

194

کراچی (رپورٹ: محمد انور) کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ ٹو اور کے ایم سی کی مجموعی طور پر 84 ایکڑ رفاہی اراضی کی غیر قانونی الاٹمنٹ اور قبضہ کرانے کے الزام میں محکمہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے کے ایم سی کے 6 اعلیٰ افسران کے خلاف تحقیقات شروع کردی ہے۔ اینٹی کرپشن نے غیر قانونی طور پر الاٹمنٹ کی کارروائی میں ملوث مذکورہ تمام افسران کو 26 ستمبر کو طلب بھی کرلیا ہے۔ یاد رہے کہ محمود آباد میں واقع واٹر بورڈ کے ٹریٹمنٹ پلانٹ 2 کی زمین پر سابق سٹی گورنمنٹ کے ناظم مصطفی کمال کے دور میں لائنز ایریا کے متاثرین نے قبضہ کرلیا تھا۔ یہ قبضہ مبینہ طور پر سٹی گورنمنٹ کے ذمے دار حکام کی ہدایت پر عارضی شفٹنگ کے نام پر دیا گیا تھا جس کے نتیجے میں ٹریٹمنٹ پلانٹ کی 49 ایکڑ اور کے ایم
سی کی 35 ایکڑ زمین پر قبضہ کیا گیا جس کے باعث ٹریٹمنٹ پلانٹ کی ازسر نو تعمیر کا منصوبہ اب تک شروع ہی نہیں کیا جاسکا اور نکاسی آب کا عظیم منصوبہ ایس تھری بری طرح متاثر ہے۔ یہ بھی خیال رہے کہ عدالت عظمیٰ ٹریٹمنٹ پلانٹ کا ناجائز قابضین سے قبضہ لیکر اراضی کو اصل حالت میں بحال کرنے کا حکم دے چکی ہے۔ حکومت سندھ کے محکمہ اینٹی کرپشن نے 14 ستمبر کو بلدیہ کراچی کے ڈائریکٹر لینڈ مینجمنٹ کے ذریعے مذکورہ اراضی کی غیر قانونی الاٹمنٹ اور قبضہ کے الزام میں تحقیقات کی غرض سے 2009ء میں تعینات 6 افسران ڈپٹی ڈائریکٹرشمس الدین، ڈسٹرکٹ آفیسر لینڈ مینجمنٹ طارق نصیر ، ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر مبین انصاری ، ڈی ڈی او ندیم خان ، ڈی ڈی او آل احمد نقوی اور ڈائریکٹر لینڈ مینجمنٹ کو 26 ستمبر کو تفتیش اور اس حوالے سے بیان قلمبند کرانے کے لیے طلب کرلیا ہے۔ یادرہے رہے کہ قومی احتساب بیورو بھی اس حوالے سے سابق سٹی ناظم مصطفی کمال اور دیگر کیخلاف انکوائری کررہا ہے۔ خیال رہے کہ ٹریٹمنٹ پلانٹ کی مذکورہ اراضی پر غیرقانونی الاٹمنٹ کے بعد سیکڑوں قابضین آر سی سی مکانات تعمیر کرچکے ہیں۔