سیاسی نعرے نہیں ٹھوس ثبوت

312

برطانوی وزیر داخلہ ساجد جاوید گزشتہ دنوں پاکستان آئے تو پاکستانی حکومت اور اس کے ترجمان نے اچھی خاصی دھما چوکڑی مچا دی کہ اب پاکستان سے لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے گی۔ برطانیہ اور پاکستان کے درمیان معاہدے ہونے والے ہیں دونوں ملکوں میں اس حوالے سے مفاہمت پائی گئی ہے۔ لیکن صرف ایک ہفتے کے بعد جب لندن میں برطانوی وزیر داخلہ سے اس حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے وہی کہا جس کا ہم 13 ستمبر کے جسارت کے اداریے میں پہلے ہی ذکر کر چکے تھے کہ برطانیہ میں کارروائیاں ہماری خواہش کے مطابق نہیں ہوتیں‘ وہ اپنے قوانین کی روشنی میں ضابطوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے مفادات کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔ ساجد جاوید نے بھی یہی کہا ہے کہ سیاسی نعرے نہیں پاکستان کو کارروائی کے لیے کرپشن اور دہشت گردی کے خلاف ٹھوس ثبوت دینا ہوں گے۔ برطانیہ سے غیر حقیقی توقعات نہ باندھی جائیں۔ ہمیں سیاست سے نہیں صرف ثبوتوں سے دل چسپی ہے‘ اسی کے مطابق کارروائی کریں گے۔ برطانوی حکومت کے ترجمان نے بھی اپنے بیان میں کہا کہ مقدمات میں سیاسی حساسیت سے واقف ہیں‘ ہمارے ملک میں کرپشن اور ناجائز اثاثوں کی تحقیقات کا مکمل طریقہ کار موجود ہے‘ تمام کارروائیوں میں قانونی طریقے پر عمل کیا جائے گا۔ برطانوی وزیر داخلہ اور حکومتی ترجمان کا بیان پاکستانی حکمرانوں سے زیادہ 20 کروڑ پاکستانیوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ یہ حکمران ایوب خان ہوں‘ ضیا الحق ہوں‘ مشرف ہوں یا بے نظیر‘ نوازشریف یا پھر عمران خان‘ ان سب کی ذہنی سطح اور سوچ یکساں ہے‘ ان سب نے سیاسی نعروں کی بنیاد پر اپنے مخالف کو بدنام کیا‘ اس کو کبھی سرے محل کا مالک تو کبھی ایون فیلڈ کا مالک قرار دیا۔ کبھی کروڑوں پاؤنڈ‘ اربوں ڈالر سوئس اکاؤنٹس میں ہیں ‘ کا الزام لگایا‘ کبھی پاکستانی عدالتوں سے اور حکومتی اداروں کے ذریعے سزائیں دلوا دیں۔ اس کے نتیجے میں پاکستان میں مخالفین کو خوب بدنام کیا گیا۔ عوام بھی ہر حکومت کے پروپیگنڈے پر ایمان کی حد تک یقین کرتے ہیں‘ اسی کی بنیاد پر انتخابات میں ووٹوں کا تناسب تبدیل ہوتا ہے‘ رجحان میں تبدیلی آتی ہے اور باقی کام حکومتی ادارے کر دیتے ہیں۔ایوب خان کے مخالفین ملک دشمن قرار پائے‘ لندن پلان والے ثابت کیے گئے‘ لیکن برطانیہ نے کسی کو نہیں نکالا۔ اسی طرح تمام سیاست دانوں کا معاملہ ہے برطانیہ نواز شریف خاندان‘ زرداری خاندان‘ الطاف حسین کو کیون نہیں نکالتا؟ اس کی وجہ صرف برطانوی حکومت کے مفادات نہیں ہیں۔ پاکستان کی طرف سے ٹھوس ثبوت نہ دیے جانے کا صرف پاکستان میں شور مچایا جاتا ہے اور زیادہ شور اردو اخبارات اور ٹی وی چینلز پر ہوتا ہے۔ غالباً تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی برطانوی وزیر داخلہ نے پاکستانی حکومت کو دو ٹوک جواب دیا ہے کہ ثبوت لائیں‘ سیاسی نعرے بازی نہ کریں۔ اس سے ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ برطانوی حکومت کی پالیسی میں کیا تبدیلی آئی ہے کہ اس نے حکومتِ پاکستان کو اس طرح دو ٹوک جواب دیا ہے۔ یہ جواب کسی جرنیل کو نہیں دیا گیا جب حکومتِ پاکستان مرتضیٰ بھٹو‘ مینگل‘ بگٹی بے نظیر‘ نصرت بھٹو وغیرہ کو غدار اور دہشت گرد قرار دیتی تھی پھر بے نظیر حکومت کے الزامات پر ایسا جواب نہیں دیا گیا اور نواز شریف حکومت کے الزامات پر ایسا جواب نہیں دیا گیا۔ عمران خان کی حکومت آتے ہی برطانوی حکومت نے ایسا کیوں کہا؟ یہ سوال خود ہی پیدا ہوتا ہے کہ کیا برطانوی حکومت نے یو ٹرن لے لیا ہے یا عمران خان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔ برطانوی وزیر داخلہ کا بیان پاکستانی عدالتوں کے لیے بھی سوال کھڑا کر گیا ہے۔ یہاں سے ٹھوس جواب جانا چاہیے کہ ہم نے منی لانڈرنگ اور دیگر امور پر جو بھی فیصلے کیے ہیں وہ ٹھوس ثبوت کی بنیاد پر ہیں اور اس کے ساتھ ہی وہ ٹھوس ثبوت برطانوی حکومت کو بھجوائے بھی جائیں۔ اگر یہ جواب نہ دیا گیا تو برطانیہ کے نزدیک بھی اور پاکستان میں بھی عدالتی فیصلوں کے بارے میں شبہات کو تقویت ملے گی۔برطانوی وزیر داخلہ نے جو کہا ہے کہ ہم سے غیر حقیقی توقعات نہ باندھی جائیں‘ غالباً وہ یہ سمجھے ہیں کہ پاکستانی حکومت برطانیہ سے توقع کر رہی ہے کہ وہ منی لانڈرنگ کے مجرموں کے خلاف کوئی کارروائی کرے گا۔ ہمارا تو یہ خیال ہے کہ موجودہ حکومت بھی دیگر سابق حکومتوں کی طرح سیاسی غوغا کر رہی ہے‘ اسے بھی پانچ سال تو کسی طرح گزارنے ہیں۔ اگلے پانچ سال تک منی لانڈرنگ کا غوغا چلے گا۔ اگر حکومت نے حقیقتاً کوئی کام کیا ہوا ہے اور ٹھوس ثبوت موجود ہیں تو اسی ہفتے برطانوی حکومت کو دے دیے جائیں۔ ویسے عمران خان جب حکومت میں نہیں آئے تھے اور الطاف حسین کی سخت مخالفت کر رہے تھے تو انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ الطاف کی دہشت گردی کے ثبوتوں کی بوریاں میرے پاس بھری ہوئی ہیں۔ لیکن آج تک وہ بوریاں لے کر لندن نہیں جاسکے۔ اب تو وہ حکمران بھی ہیں اور ان کو ثبوت لے جانے میں کوئی امر مانع نہیں ہوگا کم از کم دہشت گردی‘ منی لانڈرنگ اور پاکستان میں امن کے دشمن الطاف حسین کے خلاف جوٹھوس ثبوت ہیں‘ پیش کر دیے جائیں۔ الطاف حسین کے خلاف تو پاکستانی فوج‘ ایجنسیاں اور سارے اداروں نے منی لانڈرنگ‘ دہشت گردی اور غداری کا الزام لگایا تھا اگر وہ برطانیہ کو بھی ثبوت نہ دے سکیں تو کل کو ایم کیو ایم پر عائد پابندی پر بھی سوال اُٹھ سکتا ہے۔ لہٰذا سیاسی نعروں پر انحصار کے بجائے حکومت ٹھوس ثبوت جمع کرنے پر توجہ دے۔