پاکستان اور ٹرمپ کا شائستہ رویہ !

323

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بصد خوشی اعلان کیا ہے کہ امریکا پاکستان سے نئے سرے سے تعلقات قائم کرنے پر راضی ہو گیا ہے اور ملاقات میں امریکی صدر ٹرمپ کا رویہ بڑا شائستہ تھا ۔ ٹرمپ کی طرف سے شائستگی کا مظاہرہ یقیناً ایک خبر ہے ۔ شاہ محمود اور ڈونلڈ ٹرمپ میں ملاقات گزشتہ منگل کو استقبالیہ کے دوران میں ہوئی ہے جس سے ظاہر ہے کہ یہ ایک رسمی ملاقات تھی ۔ عمران خان بوجوہ امریکا نہیں جا سکے ، یہ وجہ کیا ہو سکتی ہے ، اس کی وضاحت نہیں کی گئی ۔ اگر کوئی قانونی رکاوٹ نہیں تھی تو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب وزیر اعظم عمران خان کو کرنا چاہیے تھا ۔ تب دوسربراہان حکومت میں ملاقات ہو سکتی تھی ۔ بہر حال ، اب پاکستان کی نمائندگی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کر رہے ہیں جو پہلے پیپلز پارٹی کے وزیر خارجہ بھی رہ چکے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ پاکستان سے تعلقات از سر نو قائم کرنے کے آرزو مند ہیں ۔ ان کے انداز سے ظاہر ہے کہ وہ اسے بڑی کامیابی قرار دیں گے ۔ عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے امریکا پر کڑی تنقید کرتے رہے ہیں اور پاکستان کے ذریعے افغانستان جانے والے کنٹینرز روکنے کے لیے دھرنا دینے کا اعلان بھی کر چکے ہیں ۔ لیکن اب تو وہ حکومت میں ہیں اور حکومت کی جو مجبوریاں ہوتی ہیں وہ انہیں بھی لا حق ہیں ۔ کچھ ہی دن پہلے جب امریکا نے پاکستان کوملنے والی رقم روک دی تھی اور امداد میں بھی کٹوتی کر دی تھی تو کہا گیا تھا کہ امریکا سے تعلقات معطل ہو چکے ہیں ۔ اب ٹرمپ نے ازراہ مہر بانی نئے تعلقات قائم کرنے کا عندیہ دے دیا ہے یعنی امریکا پاکستان پر مسلط ہی رہے گا ۔ امریکا سے تعلقات میں سرد مہری کو محب وطن پاکستانی باعث خیر قرار دے رہے تھے لیکن امریکا وہ روایتی کمبل ہے جو پاکستان کو چھوڑیگا بھی نہیں اور اس پر دباؤ بھی بڑھاتا رہے گا ۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اس کی وجہ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت ہے ۔ لیکن یہ اہمیت ہی پاکستان کے لیے مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہی ہے ۔ امریکا افغانستان میں مسلسل مار کھانے کے باوجود وہاں سے نکلنے پر تیار نہیں اور وہاں قدم جمانے کے لیے وہ پاکستان کے کندھے استعمال کرتا رہا ہے ۔ ویسے حقیقت یہ ہے کہ امریکا کو اپنی بد معاشی کے لیے کسی جغرافیائی اہمیت کی ہرگز پروا نہیں ۔ وہ ہر جگہ گھس جاتا ہے اور دہشت گردی کا ارتکاب کرتا ہے ۔ اب بھی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے تمام ممالک کو اکسایا ہے کہ وہ ایران کو تنہا کر دیں ، اس پر مزید پابندیاں لگائیں گے ۔ اس کے جواب میں عالمی طاقتوں نے ایران سے تجارت جاری رکھنے کا اعلان کر دیا ہے ۔بڑی طاقتیں برطانیہ ، چین ، فرانس ، جرمنی اور روس وہ ممالک ہیں جنہوں نے ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے پر دستخط کیے ہیں ۔ وہ ٹرمپ کی تنبیہ کے باوجود ایران سے تعلقات بر قرار رکھنے پر متفق ہیں تاہم امریکی پابندیوں کے پیش نظر تیل سمیت دیگر برآمدات کے لیے بارٹر سسٹم یعنی تیل کے بدلے اشیاء کے تبادلے کا طریقہ کار وضع کیا جا رہا ہے ۔ یہ ٹرمپ کی ایک اور ناکامی ہے ۔ امریکا شمالی کوریا کے سخت رویے کی وجہ سے اس کے سامنے جھگ گیا ہے اور یہ کہنے لگا ہے کہ شمالی کوریا اپنے جوہری ہتھیار تلف کرنے میں سنجیدہ ہے ۔ ایران پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان بھی مخمصے میں ہے کہ کیا کرے ۔ ایران پاکستان کا پڑوسی ملک ہے جس سے برسوں پہلے گیس کی فراہمی کا معاہدہ ہو چکا ہے اور وہ اپنے حصے کا کام مکمل کر کے پاکستان کی سرحد تک گیس پائپ لائن بچھا چکا ہے ۔ لیکن پاکستانی حکومتوں نے امریکا کے خوف سے اپنے حصے کا کام نہیں کیا اور معاملہ ادَھرمیں لٹکا ہوا ہے ۔ آصف علی زرداری بطور صدر پاکستان ایران سے گیس کی فراہمی کے معاہدے پر دستخط کر آئے تھے جس میں یہ شرط بھی ہے کہ اگر پاکستان نے عمل کرنے میں تاخیر کی تو اس پر جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا ۔ امریکا کا اصرار ہے کہ پاکستان ایران سے گیس لینے کے بجائے تاجکستان سے بذریعہ افغانستان بچھائی جانے والی پائپ لائن سے گیس حاصل کرے جس پر عمل میں ایک عرصہ بھی لگے گا اور افغانستان کی صورتحال میںٖ اس کے تحفظ کی ضمانت بھی نہیں دی جا سکتی لیکن پاکستان امریکی جبر کا شکار ہے ۔ فرانس کے صدر نے تو بدھ کو جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں ٹرمپ کو منہ توڑ جواب دے دیا ہے۔ صدر ٹرمپ چین کو بھی دھمکیاں دے رہے ہیں اور دونوں میں تجارتی جنگ عروج پر ہے ۔ ٹرمپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ گلوبل نظریہ کوئی چیز نہیں ۔ جو امریکا کا احترام نہیں کرے گا اسے امداد نہیں ملے گی ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں جب یہ کہا کہ ان کے دو سالہ دور میں امریکا مضبوط ، محفوظ اور امیر ہو گیا جو پہلے کبھی نہیں تھا تو اس دعوے پر جنرل اسمبلی میں قہقہے بلند ہو گئے ۔ ٹرمپ نے کھسیا کر کہا کہ مجھے ایسے رد عمل کی توقع نہیں تھی ۔ جنرل اسمبلی میں جو رد عمل سامنے آیا اس سے ظاہر ہے کہ سب نے ٹرمپ کے دعوؤں کو بکواس قرار دیا کیونکہ ٹرمپ نے محض دو سال میں امریکا کو دنیا میں تنہا کر دیا اور خود امریکا میں ان کی مخالفت بڑھ رہی ہے ۔ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں اسرائیل ، بھارت اور سعودی عرب کی خوب تعریف کی ۔بھارت کو فری سوسائٹی والاملک قرار دیا ۔ سعودی عرب میں کی جانے والی اصلاحات کو سراہا اور اسرائیل کو ’’ مقدس سر زمین پرپھلتی پھولتی جمہوریت‘‘ کہہ کر مخاطب کیا ۔ سعودی عرب میں کی جانے والی اصلاحات کو صدر ٹرمپ ہی سراہ سکتے ہیں کیونکہ یہ سب امریکا کی خوشنودی کے لیے ہوا ہے تاہم بھارت اور اسرائیل کی تعریف کرنا تو صدر ٹرمپ پر فرض ہے ورنہ بھارت میں فری سو سائٹی صرف ہندوؤں کے لیے ہو گی ، اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو کسی نہ کسی بہانے سے قتل کیا جا رہا ہے ۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں وہی کچھ کر رہا ہے جو ’’مقدس سر زمین‘‘ پر اسرائیل کر رہا ہے ۔ مگر چونکہ امریکا ان کا پشت پناہ ہے اس لیے اسے جمہوریت پھلتی پھولتی نظر آ رہی ہے ، وہ جمہوریت جس میں لوگوں سے زندہ رہنے کا حق چھینا جا رہا ہے اور زمینوں پر قبضہ ہو رہا ہے ۔ بھارت کی فری سو سائٹی میں صرف موت فری ہے ۔بہر حال پاکستان کی حکومت کو اس پر خوش نہیں ہونا چاہیے کہ امریکا پاکستان سے تعلقات کی تجدید کر رہا ہے اور ٹرمپ کا رویہ شائستہ تھا ۔ مگر مچھ بھی اپنے شکار کو نگل کر دو آنسو بہا لیتا ہے ۔