انسانیت اور ابلیسیت کا فرق

414

 

 

تین بار پاکستان کی خاتون اول رہنے والی محترم خاتون کلثوم نواز بالآخر خالق حقیقی سے جا ملیں، وہ لندن کے ایک اسپتال میں زیر علاج تھیں انہیں گلے کا کینسر تھا کینسر ایسی نامراد بیماری ہے جو مریض کو ریزہ ریزہ مارتی ہے، قطرہ قطرہ پگھلاتی ہے۔ کلثوم نواز بھی زیرہ زیرہ ہوتی رہیں، قطرہ قطرہ پگھلتی رہیں، دُکھ کی بات یہ ہے کہ ان کے اہل خانہ بھی زیرہ زیرہ مرتے رہے کیوں کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز کے مخالفین کلثوم نواز کی بیماری کو ڈراما قرار دیا کرتے تھے، ایک ایسا ڈراما جو سیاسی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے اسٹیج کیا گیا تھا۔ کلثوم نواز اللہ کو پیاری ہوگئیں تو ان کے سیاسی مخالفین کو احساس ہوا کہ کلثوم نواز تو بہت بہادر، بہت جرأت مند خاتون تھیں، ان کی جمہوری خدمات بھی یاد آنے لگیں اور یہ احساس بھی جاگ اُٹھا کہ انہوں نے جمہوریت کے استحکام کے لیے بہت سی قربانیاں دی ہیں۔ کاش! ان کی خدمات کا اعتراف ان کی زندگی میں کیا جاتا۔ یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ من حیث القوم ہم مردہ پرست ہیں اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم مردہ فیم ہیں۔
وطن عزیز کے یہ سیاسی مبصر، سیاسی دانش ور اور ٹی وی اینکر مادر ملت فاطمہ جناح، نصرت بھٹو کی سیاسی خدمات کا تذکرہ بڑی عقیدت مندی سے کیا ہے، ان کی جمہوریت پسندی اور جمہوریت کے استحکام کے لیے خدمات کو بھی جی بھر کر سراہا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی المناک موت کے بعد نصرت بھٹو نے جمہوریت کی جنگ بڑی بہادری سے لڑی اور سیاسی میدان میں انمٹ نقوش چھوڑے۔ ان کی سیاسی جدوجہد نے پیپلز پارٹی کو زندہ رکھا۔ جمہوریت کے استحکام اور کارکنوں کے عزم کو زندہ رکھنے کے لیے ہر ممکن قربانی دی۔ میاں نواز شریف کو پابند سلاسل کیا گیا تو کلثوم نواز نے بھی شریک سفر ہونے کا حق ادا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر یہ کام یہ جدوجہد تو بیگم نسیم ولی خان نے بھی کی اور بڑے احسن طریق پر جمہوریت کی جنگ لڑی، جب ولی خان حیدر آباد جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے تھے تو بیگم نسیم ولی خان نے پارٹی کو سہارا دیا، کارکنوں کی ہمت بندھائی، وہ بھٹو حکومت کے لیے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہوگئیں مگر کسی سیاست دان، کسی دانش ور، کسی سیاسی مبصر کو ان کی خدمات کا اعتراف کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔ سیانے سچ ہی کہتے ہیں توفیق تو اللہ کی دین ہے۔
نصرت بھٹو جمہوریت کے تحفظ کے لیے سیاسی میدان میں اُتریں تو ان کی کردار کشی میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ یہی سلوک بیگم نسیم ولی خان کے ساتھ بھی روا رکھا گیا اور کلثوم نواز کو بھی استثنا نہیں ملا۔ وہ ایم اے تھیں مگر ان کی قابلیت اور اہلیت کو ہدف بناتے رہے، وہ صاحب کتاب تھیں انہوں نے اپنی آپ بیتی غالباً ’’جبر اور جمہوریت‘‘ کے عنوان سے تحریر کی تھی، بہت سے دانش وروں نے بغیر پڑھے ہی کتاب پر اعتراضات کی بوچھاڑ کردی تھی، بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ کلثوم نواز کی بیماری کو سیاسی ڈراما قرار دیا گیا، حالاں کہ اس حقیقت سے سبھی واقف ہیں کہ برطانیہ کے اسپتالوں میں اسی مریض کو وینٹی لیٹر میں رکھا جاتا ہے جو قریب المرگ ہو، جس کے شفایاب ہونے کا یقین نہ ہو۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ بعض لوگ اظہار ندامت اور معذرت کے بجائے ہاتھ نچا نچا کر اور دیدے پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہے ہیں کہ اگر بیماری کو بہانہ قرار دیا گیا تو کون سی قیامت آگئی اور اس سے کیا فرق پڑ گیا۔ کچھ بے ضمیر لوگوں کا کہنا ہے ’’فیر کہہ ہو یا اے‘‘ اور ایسا کہنا کسی قانون کے تحت بھی جرم نہیں اور جب جرم کا رتکاب ہی نہیں ہوا تو پھر معافی مانگنے یا سزا بھگتنے کا کیا جواز ہے؟۔ من حیث القوم ہم اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ دل آزاری ایک ایسا جرم ہے جو قابل معافی نہیں، غلطی کا ارتکاب ابن آدم کی فطرت ہے اور غلطی کا اعتراف انسانیت کا تقاضا ہے۔ ابن ابلیس غلطی کرتا ہے تو معذرت کے بجائے اپنی غلطی پر دیدہ دلیری سے ڈٹ جاتا ہے۔ فیر کہہ ہو یا اے‘‘ کا ورد کرتا ہے۔ ابن آدم اور ابن ابلیس میں یہی فرق ہے جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔