ہر چند کہیں کہ ’’ہے‘‘ نہیں ہے

260

 

 

نئی کابینہ کی تشکیل کے بعد جس بات کی سب سے زیادہ تکرار کی گئی اسی بات سے آغاز کرتے ہیں۔ پرویز مشرف کی کابینہ میں شیخ رشید وزیر ریلوے تھے نیازی حکومت میں بھی شیخ رشید وزیر ریلوے ہیں۔ مشرف دور میں جہانگیر ترین وزیر تھے آج معاون خاص ہیں۔ فواد چودھری مشرف کے ترجمان تھے فواد چودھری آج نیازی حکومت کے ترجمان اور وفاقی وزیر اطلاعات اور نشریات ہیں۔ شفقت محمود کل وزیر مملکت تھے آج وفاقی وزیر ہیں۔ خسرو بختیار مشرف کے وزیر مملکت تھے خسروبختیار عمران خان کے وفاقی وزیر ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی مشرف دور میں وزیر اعلیٰ پنجاب تھے آج پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کے عہدے پر براجمان ہیں۔ فروغ نسیم پرویز مشرف کے وکیل تھے فروغ نسیم عمران حکومت کے وفاقی وزیر ہیں۔ زبیدہ جلال کل بھی وزیر تھیں زبیدہ جلال آج بھی وزیر ہیں۔ عمر ایوب مشرف دور میں وزیر مملکت تھے عمر ایوب نئی حکومت میں بھی وفاقی وزیر ہیں۔ غرض عمران خان کی کابینہ کے اکثر ہیرے پرویز مشرف کی ہیرا منڈی سے چنیدہ ہیں۔ عمران خان کی دریافت بلکہ نو دریافت وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ہیں۔ جن کے بارے میں وہی کہا جاسکتا ہے جو غالب نے کہا تھا
ہستی ہے نہ کچھ عدم ہے غالب
آخر تو کیا ہے، اے نہیں ہے
حکومتی معاملات میں جناب بزدار کا معاملہ یہ ہے کہ ہرچند کہیں کہ ’’ہے‘‘ نہیں ہے۔ پنجاب کے وزیر بلدیات عبدالعلیم خان نے نئے بلدیاتی نظام کے مسودے پر صوبے کے وزیر قانون کے ساتھ تبادلہ خیال کرلیا ہے۔ انہوں نے دیگر صوبوں کے اپنے ہم منصبوں کے ساتھ بھی مشاورت کی ہے۔ بہت جلد اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان کے ساتھ بھی اس باب میں گفتگو کریں گے۔ اگر کسی سے تبادلہ ہائے خیالات نہیں کیا تو وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے ساتھ نہیں کیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے پنجاب کی صوبائی کابینہ سے خطاب کیا۔ سرکاری افسران سے بھی مدد کی اپیل کی۔ عمران خان نے ہر صوبائی وزیر سے انفرادی طور پر مل کر ان کے قلمدان اور کارکردگی کے متعلق آگاہی حاصل کرنے کا بھی عندیہ دیا۔ محترم وزیر اعظم نے پنجاب کی صوبائی کابینہ سے خطاب کی ضرورت کیوں محسوس کی۔ ان خبروں کے پیش منظر تو کجا پس منظر میں بھی وزیر اعلیٰ پنجاب کو تلاش کرکے دکھا دیجیے ’’حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی‘‘۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی مثال اس شراب طہور جیسی ہے جس کے لیے غالب نے کہا تھا
واعظ نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو
کیا بات ہے تمہاری شراب طہور کی
سوال یہ بھی کیا جاسکتا ہے وزیر اعلیٰ پنجاب کی زیر صدارت پچھلے ایک ماہ میں پنجاب حکومت کے کتنے اجلاس منعقد ہوئے۔ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ گزشتہ پانچ سال میں عمران خان نے خیبر پختون خوا حکومت کی کابینہ کے کتنے اجلاسوں کی صدارت تو کجا کتنے اجلاسوں میں بہ نفس نفیس قدم رنجہ فرمایا؟۔ اس ساری صورت حال سے کیا نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں۔ اول: یہ کہ جناب بزدار ایک نمائشی یا ڈمی وزیر اعلیٰ ہیں۔ دوم: پنجاب کے اصل وزیر اعلیٰ جناب عمران خان ہیں۔ سوم: جناب بزدار ’’یونہی کوئی مل گیا تھا سرراہ چلتے چلتے‘‘ کی مثل ہیں اور ان کے ساتھ سلوک بھی ویسا ہی کیا جارہا ہے۔
ایک طرف وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں جو سب کچھ ہونے کے باوجود محض ایک واہمہ سا ہیں دوسری طرف زلفی بخاری ہیں جو ایک واہمہ سا ہونے کے باوجود سب کچھ ہیں۔ پچھلے دنوں عمران خان نے ان کا وزیر مملکت کے طور پر تقرر کردیا۔ اس کے بعد وفاقی کابینہ کے محترم ارکان کی تعداد بتیس ہوگئی۔ زلفی بخاری اس وقت خبروں کی زینت بنے جب تقریباً ڈیڑھ ماہ پہلے انہیں ایک نجی پرواز میں عمران خان کے ساتھ جانے سے روک دیا گیا تھا۔ وہ نیب کو ایک زیر تفتیش مقدمے میں مطلوب تھے۔ ان کا نام ای سی ایل پر بھی تھا۔ تاہم ان تمام تر رکاوٹوں کے باوجود انہوں نے عمران خان کے ساتھ سفر کیا کیوں کہ وہ برطانوی شہری ہیں۔ استثنیٰ ان کا حق ہے۔ دوہری شہریت کے حامل ہیں۔ وفاقی کابینہ میں شامل ہونے کے لیے انہوں نے اپنی پاکستانی شہریت کو استعمال کیا ہے۔ دوہری شہریت اور شخصیت کا حامل پارلیمنٹ کا رکن تو نہیں بن سکتا لیکن نئے پاکستان میں کابینہ کا رکن بن سکتا ہے۔ کوئی اعتراض؟ یہ پاکستان ہے۔ پرانے پاکستان میں بھی سب چلتا تھا الحمد للہ نئے پاکستان میں بھی سب چلتا ہے۔ اسی طرح عمران اسمعیل کا معاملہ ہے جنہیں گورنر سندھ لگا دیا گیا ہے۔ کیا فرق پڑتا ہے اگر وہ گریجویٹ نہیں ہیں۔ کتنے گریجویٹ ہیں جو ان کی طرح اپنے بھاری وجود کو ہچکولے دے کر ’’روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رے‘‘ جیسا لافانی گانا گا سکتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر میرٹ کیا ہوسکتی ہے۔ گریجویٹ ہونا پرانے پاکستان میں بھی میرٹ نہیں تھا نئے پاکستان میں بھی میرٹ نہیں ہے اس کے باوجود بھی اگر آپ کو اعتراض ہے تو روک سکو تو روک لو۔ فروغ نسیم ایک معروف وکیل ہیں۔ الطاف حسین سے لے کر پرویز مشرف تک ہر برائی کا دفاع کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح انور منصور صاحب اٹارنی جنرل ہیں۔ آپ بھی جنرل پرویز مشرف کے وکیل رہ چکے ہیں۔ اب یہ دونوں حضرات کس طرح پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلائیں گے۔ لہٰذا تبدیلی سرکار میں پرویز مشرف پر غداری کے مقدمے کو بھی اٹھا رکھیے۔ پرویز مشرف ویسے بھی فوجی ہیں، جنرل ہیں۔ اس معاملے میں سول حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ الحمد للہ، ثم الحمد للہ آج ایک پیج پر ہیں۔ پھر بفرض محال اگر وہ پاکستان تشریف لے آئے، بفرض محال ان پر مقدمہ چلا تو ان کا بیمار پڑنا اور اسپتال میں داخل ہونا بھی ضروری بلکہ اشد ضروری ہے۔ سنا ہے ’’تھوڑی سی پینے‘‘ کا شوق وہ بھی رکھتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اسپتال میں ان کے کمرے پر چیف جسٹس صاحب چھاپا کیسے ماریں گے، شہد کی بوتلیں کیسے برآمد کریں گے۔ پھر پرویز مشرف کو یہ کہہ کر کہ ’’ڈیڑھ مہینے سے موجیں لگی ہوئی ہیں‘‘ اسپتال سے جیل منتقل کرنا بھی چیف جسٹس صاحب کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ ان کا سارا بھرم تیل ہو جائے گا۔ ان معاملات پر اگر کسی کو اعتراض ہے تو نواز شریف کی طرف دیدہ عبرت سے دیکھ لیجیے۔ جو نہ فوج کے ساتھ ایک پیج پر ہیں اور نہ عدلیہ کے ساتھ ایک پیج پر ہیں۔ نتیجہ دیکھ لیجیے ضمانت ہونے کے باوجود بھی خاموشی توڑنے کی اجازت نہیں۔ آخری بات یہ کہ کسی بھی معاملے میں فوج اور عدلیہ پر گرفت کی توقع کے کسی بھی امکان کو خیال تو کجا حاشیہ خیال سے بھی نکال دیجیے۔ اسی میں سب کی خیر ہے۔ بھلے لوگ ویسے بھی سب کا بھلا سب کی خیر پر یقین رکھتے ہیں۔ نئے پاکستان میں بھی یہی چلے گا۔