کراچی کے کچرے کی سیاست

329

بلدیاتی اداروں کا ذکر آنے پر لوگوں کا ذہن کوڑا کرکٹ، گندگی اور غلاظت کی طرف جاتا ہے۔ لیکن سندھ خصوصاً کراچی میں صفائی ستھرائی اور کوڑا کرکٹ کے جمع ہونے سے لیکر اٹھانے تک کے عمل کا تعلق بلدیاتی اداروں سے نہیں ہے۔ بلکہ میونسپل آرگنائزیشنز کے ان بنیادی کاموں کو اس قدیم نظام سے الگ کرکے ایک نئے بنائے گئے ادارے سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ (ایس ایس ڈبلیو ایم بی) کے حوالے کردیا گیا۔ دعویٰ کیا گیا تھا کہ چوں کہ بلدیاتی ادارے کوڑا کرکٹ اٹھانے کا کام درست طریقے سے انجام نہیں دے پا رہے اس لیے لاہور کی طرز پر یہاں بھی ایک خود مختار ادارہ بناکر جدید طریقہ کار اور سائنسی اصولوں کے تحت کوڑا کرکٹ کو گھروں سے اٹھاکر ٹھکانے لگایا جائے گا۔
سندھ حکومت نے 2015 میں ایک بل کے ذریعے اس ادارے کے قیام کی سندھ اسمبلی سے منظوری لیکر اسے قائم کیا۔ یہ ادارہ اس وقت بنایا گیا جب سندھ میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے گئے تھے اور یہاں غیر منتخب اور حکومتی صوابدید کے مطابق ایڈمنسٹریٹرز تعینات تھے۔ لیکن 2016 میں منتخب نمائندوں کی طرف سے ذمے داریاں سنبھالتے ہی ضلعی بلدیاتی اداروں نے سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے قیام کی مخالفت کی اور اسے بلدیاتی امور میں مداخلت قرار دیا۔ بلدیاتی اداروں کی مخالفت پر حکومت نے فیصلہ کیا کہ سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کا دائرہ متعلقہ بلدیاتی اداروں کی مرضی ہی سے ان کی حدود تک بڑھایا جائے گا۔ حکومت کے اس فیصلے کے نتیجے میں یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر ایسی ہی مشکلات تھیں تو پھر یہ ادارہ کیوں قائم کیا گیا؟۔ دراصل اس ادارے کے قیام کی وجہ شہری سمیت سندھ کے مختلف اداروں سے گندگی و غلاظت کا خاتمہ نہیں تھا بلکہ اسے سیاسی ضرورت کے تحت قائم کیا گیا تھا۔ بعض افراد کا کہنا تھا کہ بلدیات کے اہم امور کو میونسپل اداروں سے لیکر سندھ گورنمنٹ کے کنٹرول میں کرکے اپنی اجارہ داری کو مستحکم کرنا اس ادارے کے قیام کا مقصد تھا۔ چوں کہ نیت میں کھوٹ تھا نتیجے میں تین سال گزرنے کے باوجود ایس ایس ڈبلیو ایم بھی اس طرح فعال نہ ہوسکا جسے ہونا چاہیے تھا۔
کراچی کے چھ شہری اور ایک دیہی بلدیاتی کونسل میں سے ضلع کورنگی اور وسطی کی ڈی ایم سیز نے سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کو اپنے ضلع میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی دونوں ادارے ماضی کی طرح خود یہ امور انجام دے رہے ہیں۔ جب کہ ڈسٹرکٹ کونسل کراچی سمیت دیگر 5 اداروں نے صفائی ستھرائی اور کوڑا اٹھانے کے امور مذکورہ ادارے کے سپرد کردیے۔ مگر اس کے باوجود آج تک ایس ایس ڈبلیو ایم بی گھروں سے بلا چارجز کچرا اٹھانے کا سلسلہ شروع نہیں کرسکا۔ اور نہ ہی ضرورت کے مطابق گاربیج اسٹیشنز بناسکا۔ ایس ایس ڈبلیو ایم بی کا قیام اس لیے بھی ایک سوال ہے کہ یہ ادارہ صرف ایک ’’سب ایجنٹ‘‘ کے طور پر خدمات انجام دے رہا ہے۔ ماضی میں اور آج بھی وہ بلدیاتی ادارے جنہوں نے ایس ایس ڈبلیو ایم بی کو قبول نہیں کیا وہ بھی مختلف کنٹریکٹرز کے ذریعے کچرا اٹھاکر ٹھکانے لگانے کا کام کراتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ایس ایس ڈبلیو ایم بی نے بھی ان کاموں کا ٹھیکہ چائنا کی کمپنی اور دیگر کو ٹھیکا پر دیا ہوا ہے۔ اس نئے ادارے کے قیام سے کوڑا کرکٹ اٹھانے ٹھکانے لگانے اور صفائی ستھرائی کے امور میں کوئی فرق نہیں آیا تاہم ان امور پر آنے والے سالانہ اخراجات میں بلاوجہ کروڑوں روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ خیال تھا کہ ایس ایس ڈبلیو ایم بی کے قیام سے اسپتالوں، ہوٹلوں اور شہر کی صنعتوں کے فضلے کو بھی ضائع کرنے یا اٹھانے میں مدد ملے گی مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس ادارے کے چار ایم ڈی تبدیل ہوچکے اور پانچویں خدمات انجام دے رہے ہیں مگر تاحال اس ادارے کے پاس شہر کے اسپتالوں، صنعتوں اور ہوٹلوں سے پیدا ہونے والے یومیہ کچرے کی کل مقدار کا بھی پتا نہیں ہے۔
ماہرین کا اندازہ ہے کہ صرف کراچی کے رہائشی اور تجارتی علاقوں سے یومیہ 13 ہزار ٹن کچرا نکلتا ہے۔ سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ اور متعلقہ بلدیاتی ادارے اب بھی یومیہ زیادہ سے زیادہ نو ہزار ٹن کچرا اٹھاکر انہیں لینڈ فل سائٹ پر ٹھکانے لگاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب بھی کم ازکم تین ہزار ٹن کوڑا کرکٹ نہیں اٹھایا جارہا۔ یہ کوڑا کرکٹ مختلف ندی نالوں میں جاکر جمع ہوجاتا ہے یا یہاں سے سمندر میں چلا جاتا ہے کچرا اور بغیر ٹریٹمنٹ کے سیوریج سمندر میں جانے سے سمندری حیاتیات کو شدید نقصان بھی پہنچ رہا ہے۔ مگر نہ تو سندھ حکومت کو اس کی فکر ہے اور نہ ہی کسی اور ادارے کو۔
حکومت کو چاہیے کہ سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کی تین سالہ کارکردگی کی جانچ کے ساتھ اس کے مالی امور کا آزادانہ آڈٹ کرایا جائے۔ مالی اخراجات کے ساتھ اس کے قیام سے ہونے والے فوائد اور نقصانات کا جائزہ لیکر اس کے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ کیا جائے۔ دیکھنا یہ بھی ضروری ہے کہ صوبے کے نام اور دائرے کی سطح پر قائم اس ادارے نے سندھ کے دیگر شہروں میں کس کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ عدالت عظمیٰ نے ایس ایس ڈبلیو ایم بی کے قیام اور اس کی کارکردگی پر تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا۔