معیشت آپریشن تھیٹر میں

363

وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ پاکستان کی معیشت آئی سی یو میں ہے، ابھی اس کا بائی پاس ہورہا ہے، آپریشن کامیاب ہونے پر معیشت ٹریک پر آجائے گی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کی معیشت انتہائی خراب صورتحال سے گزررہی ہے۔ اندرونی اور بیرونی قرضے بڑھتے جارہے ہیں اور صرف قرضوں کا سودا ادا کرنے کے لیے مزید قرضہ لیا جارہا ہے۔ عام آدمی مہنگائی کے بوجھ تلے ایسا دبا ہے کہ سانس لینا مشکل ہورہا ہے۔ بینک دولت پاکستان نے اپنی تازہ رپورٹ میں مہنگائی میں مزید اضافے کی نوید سنائی ہے اس کے ساتھ ہی سود کی شرح میں ایک فیصد اضافہ بھی کردیا ہے۔ ہر اہل ایمان کا اللہ کے اس فرمان پر یقین ہے کہ سود اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ ہے اور ہمارے تمام حکمران اس جنگ پر کمربستہ ہیں جس میں شکست یقینی ہے۔ نئی حکومت کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ معیشت کو سنبھالا کس طرح دیا جائے۔ اس ناکامی پر تنقید اس لیے زیادہ ہورہی ہے کہ اقتدار میں آنے سے پہلے عمران خان اٹھتے بیٹھتے حکمرانوں کو ہدف تنقید بناتے اور مہنگائی کا ذمے دار قرار دیتے تھے۔ گیس، بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر شور مچاتے اور ایسے نئے پاکستان کی تصویر دکھاتے تھے جہاں عام آدمی بھی خوشحال ہو اور سکھ کا سانس لے سکے۔ ان کے ایسے دعووں نے عام آدمی کو اچھے حال اور مستقبل کی آس دلائی کہ شاید جو کچھ کہا جارہا ہے اس پر عمل بھی ہو۔ لیکن اقتدار میں آکر ایک ماہ کے اندر اندر گیس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کردیا، بجلی کی قیمت بڑھادی اور اب اوگرا نے پیٹرولیم مصنوعات میں ساڑھے چار روپے تک مزید اضافے کی سفارش کی ہے لیکن حکومت نے ازراہ کرم فی الحال اس اضافے کو روک دیا ہے لیکن یہ اضافہ آج نہ سہی کچھ دن بعد ہوکر رہے گا کہ وزیر خزانہ کے بقول معیشت انتہائی نگہداشت کے وارڈ (آئی سی یو) میں پڑی بائی پاس کی منتظر ہے۔ اور حکمرانوں کے پاس اس کے آپریشن کے دو طریقے ہیں۔ ایک تو یہ کہ مہنگائی میں اضافہ کرکے عوام کا خون مزید نچوڑ کر بستر علالت پر پڑی ہوئی معیشت کو چڑھایا جائے یا پھر پرانے معالجین یعنی بین الاقوامی سود خوروں کے سامنے ہاتھ جوڑے جائیں۔ اس کی تیاریاں مکمل ہیں اور لب دم معیشت کا چرچا کرنے کا اصل مقصد ہی یہ بتانا ہے کہ مزید قرضے لیے بنا کوئی چارا نہیں۔ چنانچہ وزیر خزانہ اسد عمر نے فرمایا ہے کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کی بنیاد قرض کا حصول ہے۔ عوام کو آہستہ آہستہ ذہنی طور پر تیار کیا جارہا ہے کہ زندگی چاہیے تو قرض کی بھیک ملنے پر شور نہ مچائیں۔ اور یہ انتباہ بھی کردیا کہ اگلے سال جو بوجھ بڑھنے والا ہے نوجوان قیادت اس کے بارے میں سوچے۔ کون سی نوجوان قیادت؟ سب کچھ تو حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے جن میں نوجوان کم ہی ہیں۔ یعنی آپ بوجھ بڑھاتے جائیے اور ذمے داری دوسروں پر ڈالتے جائیے۔ بعض تبصرہ نگاروں کے مطابق نئے پاکستان میں پرانا کھیل ہی جاری ہے جو وہیں سے شروع ہوا ہے جہاں ختم ہوا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف سابق حکمرانوں کی گدائی پر تنقید اور کشکول برداری پر تنقید کرتی رہی ہے، خاص طور پر آئی ایم ایف کے پاس جانے سے گریز کا عندیہ دیا جاتا رہا ہے مگر اب خود کشکول گدائی اٹھا لیا ہے اور جواز یہ کہ پاکستانی معیشت کا بائی پاس ہورہا ہے، آپریشن کامیاب ہوگیا تو معاملات سنبھلیں گے۔ لیکن اس کے لیے صرف مزید قرض چڑھانا اور مہنگائی میں اضافہ کرتے رہنا واحد حل نہیں ہے اور نہ ہی وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں بیچنے سے خزانہ بھرے گا۔ ٹیکس نیٹ میں اضافے کی بات کی گئی تھی لیکن وہی ڈھاک کے تین پات۔ تنخواہ دار طبقہ تو ٹیکس دینے پر مجبور ہے مگر زرعی شعبے کو بالکل نظر انداز کردیا گیا ہے۔ بڑے بڑے جاگیردار، زمیندار اور صنعت کار اپنے حصے کا ٹیکس ادا نہیں کررہے۔ ریاست مدینہ میں اپنی محنت سے زیادہ سے زیادہ کمانے اور املاک بنانے پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن حقوق اللہ حقوق العباد کی ادائیگی لازم ہے چنانچہ ریاست مدینہ میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں ملتا تھا۔ سود لینے دینے اور اس کا حساب کتاب لکھنے کی سخت ممانعت تھی اور یہاں حکومتیں سود لے رہی ہیں اور بینک اس کا حساب رکھنے پر مامور ہیں۔ اس کے باوجود معیشت آئی سی یو میں پڑی ہے یعنی نہ خدا ہی ملا نہ معیشت سنبھلی۔ سود کے حق میں دلائل دیے جاتے ہیں۔ رسول اکرمؐ نے سب سے پہلے اپنے خاندان کا سود معاف کیا تھا۔ اس صورتحال میں ریاست مدینہ جیسی ریاست بنانے کا دعویٰ مضحکہ خیز نہیں تو اور کیا ہے۔ نجی بینکوں نے حکومت کو مزید قرض دینے سے انکار کردیا ہے۔ آئی ایم ایف سے مزید قرض کی راہ ہموار کرنے کے لیے اس کی شرائط پر گیس، بجلی، پیٹرول وغیرہ کی قیمتیں بڑھائی جارہی ہیں۔ بین الاقوامی سود خور قرض دینے سے پہلے یہ اطمینان حاصل کرلیتے ہیں کہ مقروض قرض ادا کرسکے گا یا نہیں۔ بصورت دیگر چین کی طرح مقروض ملکوں کے علاقوں پر قبضہ کرلیا جاتا ہے۔ بینکوں سمیت عام سود خور بھی یہی کرتے ہیں کہ عدم ادائیگی پر اپنے غنڈوں کو بھیج کر گھر کا سامان اٹھوا لیتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے وفد نے گزشتہ دنوں مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد سے ملاقات کی ہے جس میں وفد کو اقتصادی صورتحال کے بارے میں بتایا گیا۔ یہ دورہ بھی غالباً یہ اطمینان حاصل کرنے کے لیے ہے کہ نئی حکومت اس کا قرض ادا کرنے کے لیے کس حد تک جاسکتی ہے۔ اسد عمر کہتے ہیں کہ ہمیں جلد بازی کے بجائے بہتر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے کس کو انکار ہے لیکن یہ بہتر فیصلے کس کے حق میں ہوں گے؟ ویسے تو عمرانی حکومت کئی فیصلے جلد بازی میں کرچکی ہے جن کو واپس بھی لینا پڑا۔