کالا باغ ڈیم اور دربان!

224

 

 

اہل بیت سے عقیدت رکھنے والوں پر عموماً کوفی مسلط کردیے جاتے ہیں جو دریائے فرات کے کنارے خیمہ زن معصومین کو پیاسا مارنا چاہتے ہیں۔ آبی ماہرین کی رائے کے مطابق چند برسوں کے بعد پاکستان قحط الرجال کے ساتھ قحط آب میں بھی مبتلا ہوجائے گا۔ جنرل ایوب خان کے بعد کسی بھی حکمران کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ ڈیم بناتا، بس چور مچائے شور کے مصداق بھارت ہمارا پانی روک رہا ہے۔ بھارت ہماری زمینوں کو بنجر کرنے کی سازش کررہا ہے۔ بھارت پاکستان کو صومالیہ بنانا چاہتا ہے۔ اس شور شرابے اور عالمی عدالت میں قوم کا پیسا ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ ہم بھی بھارت کی طرح عملی اقدامات اٹھائیں۔ بھارت کی طرح ہم بھی دریاؤں کا رخ موڑیں تا کہ عالمی برادری کے سامنے بھارت سے پانی کی بھیک دلانے کے لیے سجدہ ریز ہونا نہ پڑے، سرنگوں نہ ہونا پڑے۔ ہم ایک مدت سے یہ گزارش کررہے ہیں کہ ایسی قومی حکومت تشکیل دی جائے جو بغیر تنخواہ کے ملک و قوم کی خدمت سرانجام دے کیوں کہ سیاست دانوں کا یہ سیاسی منشور ہی نہیں کہ وہ قوم کو خوش حال اور ملک کو مستحکم بنائیں، وہ صرف دولت کے حصول کے لیے سیاست کرتے ہیں، وہ اپنا بینک بیلنس بڑھانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ سیاست دان کالا باغ ڈیم بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے مگر غور طلب بات یہ ہے کہ ایٹمی دھماکا کرنے کے لیے چاروں صوبوں کی رائے طلب نہیں کی گئی۔ سوال یہ بھی ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لیے چاروں صوبوں کی رائے کو اتنی اہمیت کیوں دی جاتی ہے؟۔ ایک صاحب کسی افسر سے ملنے گئے مگر دربان نے اجازت ہی نہ دی وہ صاحب یہ دیکھ کر حیران ہوتے رہے کہ جو آتا ہے بغیر کسی روک ٹوک کے صاحب سے ملنے چلا جاتا ہے، حیرانی حد سے بڑھی تو موصوف نے دربان سے کہا۔ میں کئی گھنٹوں سے ملاقات کا منتظر ہوں، تم جانے ہی نہیں دیتے مگر دوسرے آنے والوں کو تم نے نہیں روکا۔ ’’وہ تو مجھ سے پوچھے بغیر ہی صاحب کے کمرے میں چلے جاتے ہیں‘‘۔ دربان نے جواب دیا۔ کالا باغ ڈیم کے معاملے میں ہمارے سیاست دانوں کا رویہ بھی دربان سے مختلف نہیں۔ یادش بخیر! جنرل پرویز مشرف نے کہا تھا کہ گلگت بلتستان کے دو دریا پاکستان سے بھارت جاتے ہیں اگر ان دریاؤں کا رخ موڑ دیا جائے تو ہمیں پانی کی قلت کے خوف سے نجات مل سکتی ہے مگر اس پر توجہ نہیں دی گئی۔ کاش! ہمارا مقتدر طبقہ جنرل پرویز مشرف کی رائے کو اہمیت دیتا تو ہمیں پانی کی قلت کے
خوف سے نجات مل جاتی اور یہ خدشہ بھی نہ ہوتا کہ چند سال کے بعد پاکستان بنجر ہوجائے گا، پانی کی ایک ایک بوند خون کے قطروں سے بھی زیادہ عزیز ہوجائے گی۔ گلگت بلتستان میں دیوسائی کے مقام سے کالا پانی اور چھوٹا پانی نام کے دو دریا پاکستان سے بہتے ہوئے بھارت میں داخل ہوجاتے ہیں اگر ان دریاؤں کا رخ موڑ دیا جائے تو پاکستان پانی کے معاملے میں خود کفیل ہوجائے گا۔ بھارت جو پاکستان کو بنجر بنانے کے خواب دیکھ رہا ہے اس کی آنکھوں ہی میں دفن ہوجائے گا۔ ہمیں اس حقیقت کا ادراک ہے کہ پاکستان دشمن اور بھارت کے ایجنڈے پر کاربند آلہ کار افراد کالا پانی اور چھوٹا پانی دریاؤں کے رخ موڑنے کے اقدام پر سیخ پا ہوجائیں اور ان دریاؤں کو بھی کالا باغ ڈیم کی طرح متنازع بنانے کی سعی نامشکور کریں گے وہ اسے ناقابل عمل قرار دیں گے مگر ان کے تمام دلائل ان کے خبث باطن کے اظہار کے سوا کچھ نہیں کیوں کہ کوہساروں کو کاٹ کر شاہراہ قراقرم بنائی جاسکتی ہے تو پہاڑوں کو کاٹ کر دریاؤں کا رخ کیوں نہیں موڑا جاسکتا؟۔