سید مودودیؒ دعوت تحریک انقلاب

496

برصغیر میں پیدا ہونے والے دنیا کے عظیم عالم، انقلابی مفکر اور داعی جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے حوالے سے ایک خصوصی اجتماع میں سابق امیر جماعت اسلامی منور حسن نے یاد دہانی کرائی کہ دین غالب ہونے کے لیے آیا تھا اوار بحیثیت مسلمان ہم سب کو اس کی جد وجہد کرنی چاہیے، یہ ہم پر فرض ہے اور سید الابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جماعت اسلامی بھی غلبۂ دین کی جد وجہد کے لیے بنائی تھی۔ منور حسن نے مولانا کے لٹریچر کے حوالے سے کہاکہ اگر تبدیلی اور انقلاب کی جد وجہد کرنی ہے تو مولانا کا لٹریچر اس جد وجہد میں بہترین ہتھیار کے طور پر کام آئے گا۔ اس اجتماع میں حافظ محمد ادریس،عبدالغفار عزیز نے بھی سید مودودیؒ کی فکر اور تحریر کے حوالے سے حاضرین کو بہت سی یا دہانیاں کرائیں۔ سید مودودیؒ کی یاد منانے کا مقصد بڑی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ اکثر انتخابی نتائج ظاہری کامیابیاں اور ناکامیاں اسلامی تحریکوں کے کارکنوں کے لیے پریشانی کا سبب بن جاتی ہیں۔ آج میڈیا کا دور ہے اس کے طوفان کے سامنے اچھے اچھوں کا پتا پانی ہوجاتا ہیاکابرین جماعت نے اس موقع پر چیئرمین سے مدد لینے کا مشورہ دیا وہ قرآن اور حدیث ہیں اور مولانا کے لٹریچر میں ان ہی دونوں کی تشریح ہے۔ اس لٹریچر اور قرآن و حدیث کی مدد کے بغیر کوئی اسلامی تحریک ایک قدم نہیں بڑھاسکتی۔ اس لٹریچر سے اپنا رشتہ، تعلق اور اس سے رہنمائی حاصل کرنے کی رفتار کوئی نہیں بتاسکتا۔ اس کے بارے میں بھی سید مودودیؒ نے رہنمائی دی ہے کہ اس کا فیصلہ بھی اپنا دل کرتا ہے اور یہ گواہی اپنے دل سے لینی چاہیے۔ دنیا کے ہر مسئلے کے حوالے سے سید مودودیؒ کی سوچی سمجھی رائے تھی کہ قرآن زندگی اور آخرت کے تمام مسائل کی شاہ کلید ہے اور اس یقین و ایمان کے ساتھ اگر قرآن پڑھا جائے تو اﷲ خود راستہ دکھاتا ہے۔ یہی توجہ دلائی گئی۔ اتنا بڑا اجتماع بھی محض چند ہزار لوگوں کو جمع کرنے کے لیے نہیں تھا بلکہ یہ ضروری تھا کہ گاہے گاہے تحریک کے لوگ جمع ہوں اپنا جائزہ لیں۔ لٹریچر سے قرآن و حدیث سے اپنی وابستگی کا جائزہ لیں سیاست اور دنیا کے بہت محاذوں پر ناکامی کے اسباب خود بخود سامنے آجائیں گے۔ نہ کسی کو الزام دینے کی ضرورت نہ کسی سے جواب طلب کرنے کی ضرورت۔ یہ قرآن ہمیں ہر سوال کا جواب دیتا ہے۔ مستقبل کا لائحہ عمل دیتا ہے۔ سید مودودیؒ نے امت کا رستہ صدیوں پرانی تحریک سے جوڑا اس پر بہت لوگوں کو ابتدا میں بات سمجھ میں نہیں آئی اور مخالفت پر آمادہ ہوئے لیکن رفتہ رفتہ دنیا نے مان لیا کہ سید مودودیؒ کا خیال درست تھا اگر کسی انقلاب، کسی تبدیلی، دین کے غلبے کی جد وجہد کرنی ہے تو اس طریقے پر کرنی ہے جس کا احیا سید مودودیؒ نے کیا ۔بلا شبہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ایک دعوت، تحریک اور انقلاب کا نام ہے۔