عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ڈیموں کی مخالفت کرنے والوں کو بے ضمیر اور بے حس قرار دے دیا ہے۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ ڈیموں بھیک مانگ کر نہیں بنائے جاسکتے۔ چیف صاحب کے اس فرمان سے کوئی بدبخت ہی انکار کرنے کی جرأت کرسکتا ہے کہ اپنی مدد آپ کرنا بھیک مانگنے کے مترادف نہیں ہوتا جو لوگ ڈیم کی مخالفت کررہے ہیں وہ کسی اور کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔ یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ چیف جسٹس ملک دشمنوں کو جانتے ہیں مگر عدالت کے کٹہرے میں نہیں لاسکتے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ عدلیہ کو ڈیم بنانے کا کوئی اختیار نہیں، ان لوگوں نے عدلیہ کو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ ججوں کو اپنا سیاسی شوق پورا کرنے کے لیے چاہیے کہ سیاسی پارٹی بنالیں، ڈیمز وغیرہ بنانے کی ذمے داری حکومت کی ہے، عدلیہ حکومتی معاملات میں مداخلت نہ کرے تو بہتر ہے اور جمہوریت کی بقا کے لیے ضروری ہے۔
سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ متعدد بار اقتدار میں آئی ہیں مگر ڈیمز وغیرہ کے بارے میں سوچنا تک گوارا نہ کیا مگر آج تک کسی نے اس مجرمانہ غفلت کا احتساب نہ کیا، حالاں کہ اس غفلت کے ذمے داروں کو سبھی جانتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ اگر ایوب خان کی حکومت ختم نہ ہوتی تو کالا باغ ڈیم بن جاتا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما چیف جسٹس آف پاکستان کی مخالفت تو بڑی دیدہ دلیری سے کررہے ہیں اگر وہ اپنی کوتاہیوں کا اعتراف بھی اسی جرأت مندی سے کریں تو بہت سے مسائل ختم ہوسکتے ہیں مگر ہماری قومی بدنصیبی یہ ہے کہ یہاں پائے جانے والے سیاست دان سیاست نہیں کرتے، سیاست کاری کرتے ہیں۔ عدلیہ اور ڈیمز کی مخالفت کرنے کا واضح مطلب بھاشا اور مہمند ڈیمز کو کالا باغ ڈیم بنانے کی سعی نامشکور ہے جو انتہائی قابل مذمت ہے۔ من حیث القوم اگر ہم ایسے سیاست دانوں کا احتساب کا تہیہ کرلیں تو ان کو کہیں پناہ نہیں ملے گی۔ حکومت ان کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اگر وزیراعظم کوشش بھی کرے تو کچھ نہیں کرسکتا، پاکستان مخالفین کے ہاتھ بہت لمبے ہیں اتنے لمبے ہیں کہ قانون بھی ان کے دست اندازی سے محفوظ نہیں، اتنے مضبوط ہیں کہ کسی کی بھی گردن ان سے محفوظ نہیں۔ جب چاہیں کسی کو بھی گردن سے پکڑ سکتے ہیں۔
چیف صاحب نے ڈیموں کی تعمیر کے لیے قوم سے امداد کی اپیل کی تو عمران خان نے کہا تھا کہ عطیات جمع کرتے کرتے وہ تھک چکے ہیں تھکن ان پر غالب آچکی ہے سو، وہ عطیات جمع نہیں کرسکتے مگر جب وہ وزیراعظم بن گئے اور چیف جسٹس پاکستان کے ڈیمز فنڈ میں عطیات کی بھرمار ہوگئی تو وزیراعظم فنڈ بھی قائم کردیا گیا تا کہ قوم جو عطیات چیف جسٹس کے فنڈ میں جمع کرارہی ہے وہ وزیراعظم فنڈ میں جمع ہوں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو ڈیمز فنڈ کے لیے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اس کا مقصد کیا ہے؟۔ شاید کہنے والے سچ ہی کہہ رہے ہیں کہ ڈیمز مخالفین بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کو بھی کالا باغ ڈیم بنانے کی سازش کررہے ہیں مگر وزیراعظم کے ڈیمز فنڈ نے تو ساری دال ہی کالی کردی ہے۔ وزیراعظم کے ڈیمز فنڈ پر حکومت کا قبضہ ہوگا اور وہ اپنی صوابدید پر اسے خرچ کرسکتی ہے مگر چیف جسٹس پاکستان کے ڈیمز فنڈ پر عدلیہ کے حکم پر صرف ڈیمز ہی بنائے جاسکتے ہیں۔