چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے خود اپنی ہی نگرانی میں جاری احتسابی عمل کے بارے میں بہت چونکا دینے والا پیرای�ۂ اظہار اپنایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور عدلیہ نے احتساب کا نعرہ لگایا جس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ صرف تحقیقات اور ریفرنس دائر کرنے کی خبر آتی ہے۔ نیب کوئی کیس بتائے جسے منطقی انجام تک پہنچایا گیا ہو۔ فواد حسن فواد اور احد چیمہ کی گرفتاری سے کیا ہوا؟۔ نتائج درکار ہیں نیب کا ڈھانچہ بدلنا ہوگا۔ چیف جسٹس نے اس حوالے سے ایک طویل چارج شیٹ پیش کی ہے جس میں اصل مخاطب قومی احتساب بیورو ہی ہے۔ موجودہ حکومت کے قیام سے پہلے ہی عدلیہ نے ملک میں احتسابی عمل کا آغاز کیا تھا۔ پاناما لیکس کا معاملہ ملک میں احتساب کا لٹمس ٹیسٹ تھا کیوں کہ یہ ملک میں انتہائی طاقتور اور بااثر افراد اور گھرانوں کی پراسرار اور نامعلوم ذرائع سے کمائی جانے والی دولت سے تعلق رکھتا تھا۔ تبدیلی حکومت کے نتیجے میں وہ سیاسی قوت براسر اقتدار آئی جس کی سیاست کا خمیر ہی احتساب اور کرپشن کے نعروں سے اُٹھا تھا۔ عمران خان نے گلی کوچوں میں، ٹی پروگرامات اور کنٹینر پر کھڑے ہوکر احتساب جیسے نان ایشو کو معاشرے کااس قدر حساس ایشو بنا دیا کہ ایک مرحلے پر اس کی زد خود ان پر یوں پڑنے لگی کہ پارٹی کے ایک سینئر رہنما جسٹس وجیہہ الدین صدیقی نے ان کے احتساب کا نعرہ لگایا مگر یہ مالی بدعنوانی کا معاملہ نہیں پارٹی ڈسپلن اور اصولوں کی بات تھی۔
اسے المیہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد جس احتسابی عمل میں تیزی آنا چاہیے تھا سست روی کا شکار ہوتا نظر آنے لگا ہے۔ عام آدمی تو نعروں کی کشش اور سحر میں گم ہو کر رہ جاتا ہے اسے اپنے رومانس کے ساتھ ہاتھ ہوجانے کی کانوں کان خبر نہیں ہوتی بلکہ خبر اس وقت ہوتی ہے جب منظر کلی طور پر تبدیل ہو چکا ہوتا ہے مگر یہاں تو عدلیہ کو خود اپنے شروع کردہ سیاسی عمل کے ساتھ ہاتھ ہوجانے کا احساس ہورہا ہے۔ عدلیہ اس سارے عمل کی غیر علانیہ نگران ہے۔ پاناما کیس میں بھی عدلیہ کی نگرانی اور دباؤ نہ ہوتا تومعاملہ بھی چند دن گرم رہ کر یادوں کی لوح سے محو ہو چکا ہوتا۔ عمران خان کی جماعت کی اُٹھان اور ان کی سیاست کی بنیاد ہی احتساب ہے۔ ان کی بائیس سالہ سیاسی جدوجہد میں احتساب کے نعروں کو خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے۔ ایک بھولی بسری اصطلاح کو لوح حافظہ پر ازسر نو تازہ کرنے والی جماعتوں اور شخصیات میں عمران خان اوران کی جماعت بھی شامل ہے۔ ملک کے ایک وزیر اعظم کو اسی عمل کے نتیجے میں گھر اور جیل کی راہ دکھادی گئی۔ ایک سابق صدر بھی احتسابی عمل کے کمزور سے شکنجے میں کسے جارہے ہیں۔ اس کے باجود اگر مجموعی طورپر ملک میں احتساب ہوتا نظر نہیں آرہا تو اسے بدقسمتی ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کا کیا کیجیے کہ ڈیل اور ڈھیل دونوں باتیں ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ کبھی ہم سیاسی ضرورتوں کے تحت ایسا کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور کبھی ہمارے بیرونی مہربان ہمیں اس راہ پر ڈال دیتے ہیں۔ چیف جسٹس کی دل شکستگی کے پیچھے کیا راز اور واردات ہے یہ تو انہی کو معلوم ہوگا مگراحتساب کی رفتار سُست ہونے کا ذمے دار احتساب بیورو کے سوا کوئی نہیں کیوں کہ احتساب بیورو ایک آزاد ادارہ ہے۔ ہمارے ہاں اس طرح کے اداروں کی آزادی محض خواب ہی رہی ہے۔ یہاں احتساب سے وابستہ ادارے تو کیا عدلیہ بھی ماضی میں سیاسی اثرات سے پاک اور محفوظ نہیں رہی اور ججز ٹیلی فون پر فیصلوں کی ہدایات سنتے اور جی سر جی سر کہتے پائے جاتے رہے۔ ججز کالونیوں میں پراسرار کردار بریف کیس لے کر گھومتے دکھائی دیتے رہے ہیں اور اس کے بعد ان کے ایسے فیصلے سامنے آتے رہے ہیں جن میں ’’چمک‘‘ بولتی نظر آتی رہی ہے۔ ایسے میں احتساب بیورو کو حکمران اگر واقعی آزاد ادارے کے طور پر بحال رکھتے ہیں تو یہ کمال ہی ہوگا۔
حقیقی جمہوریت میں اس طرح کے ادارے سچ مچ آزاد ہوتے ہیں۔ یہی آزاد ادارے حکومت وقت کا احتساب کرنے اورحکمرانوں کو طلب کرنے کی جرأت بھی رکھتے ہیں۔ اب حکومت نے قومی احتساب بیورو کو آزاد ادارے کے طور پر تسلیم کر لیا ہے تو احتسابی عمل کی اصل ذمے داری اسی ادارے پر عاید ہوتی ہے۔ یوں پہلا کام ادارے کی کچھ اس انداز سے تنظیم نو ہونا چاہیے کہ ادارے میں سفارشی اور اقربا پروری کے راستے داخل ہونے ملازمین کو واپسی کی راہ دکھائی جائے۔ یہاں ایسے دیانت دار اور باصلاحیت افسروں کو تعینات کیا جائے جو میرٹ کو مالا پر جپنے کا کوئی منتر نہ سمجھتے ہوں بلکہ اس لفظ کے تقدس اور حقیقت پر عقیدے کی حد تک یقین رکھتے ہوں۔ ایسی ٹیم کی تشکیل کوئی انہونی بھی نہیں ماضی میں کہوٹا ایٹمی پلانٹ کی بنیاد رکھتے ہوئے ٹیم کی تشکیل کا مشکل مرحلہ بہت کامیابی سے اسی معاشرے میں سر ہو چکا ہے۔ اس لیے بے لاگ احتساب کے لیے دیانت دار ٹیم کا انتخاب بھی کوئی مشکل کام نہیں۔ اس ملک اور معاشرے میں آج بھی بے شمار لوگ اصطلاحات کے تقدس پر یقین رکھتے ہیں۔ انہیں تلاش کرنے اور ڈھونڈ نکالنے کے لیے صرف جوہری کی نگاہ چاہیے۔ عزم و ارادہ ہو تو یہ مشکل مرحلہ بھی سر کیا جا سکتا ہے۔ اس انداز سے تنظیم نو کے بعدہی قومی احتساب بیورو اپنے مقاصد کی جانب پیش قدمی کر سکتا ہے۔ فقط چیئرمین احتساب بیورو کی ڈانٹ ڈپٹ سے ادارے کا ماحول نہیں بدل سکتا۔ اس ڈانٹ ڈپٹ سے خبریں تو بن سکتی ہیں اور سرخیاں لگ سکتی ہیں مگر اس سے زمینی صورت حال تبدیل نہیں ہو سکتی۔ عدلیہ کی طرف سے احتسابی عمل پر کھلا عدم اعتماد ایک سوالیہ نشان ہے۔ اگر اس بار بھی احتساب کے نعرے اور دعوے ہواؤں میں تحلیل ہو گئے تو عوام کسے وکیل کریں گے اور کس سے منصفی چاہیں گے؟۔ موجودہ حالات میں احتسابی عمل کے اپنے ہی تقاضے ہیں۔ احتساب کرنے والا ادارہ اگر ان تقاضوں کے عین مطابق کام نہیں کرے گا تو پھر احتساب کا حال وہی ہونے جا رہا ہے جس کا خدشہ چیف جسٹس کی باتوں میں مستور ہے۔