اخباری صنعت کو دھمکیاں

176

پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے راولپنڈی میں میٹ دی پریس سے خطاب کے دوران دھمکی دی ہے کہ صحافیوں کو تنخواہ نہ دینے والے اداروں کے اشتہارات روکیں گے۔ انہوں نے اچھی اچھی باتیں بھی کیں اور کہا کہ صحافیوں کو ہیلتھ کارڈ بھی دیے جائیں گے، سرکاری اشتہارات سے متعلق پالیسی بھی تشکیل دے دی ہے۔ یہ مسئلہ صرف پنجاب کا نہیں ہے ان کا یہ کہنا بجا ہے کہ جو اخبارات صحافیوں کو تنخواہ نہیں دے رہے ہیں وہ غلط کررہے ہیں لہٰذا ان کے اشتہارات روک لیے جائیں گے۔ لیکن اخباری صنعت آج کل جس بحران کا شکار ہے اس کے ذمے دار تو حکمران ہی ہیں۔ معاملہ چند لاکھ کا نہیں اربوں روپے کا ہے۔ اشتہارات کے جعلسازی کے دھندے میں حکومت کے اربوں روپے ادھر ادھر کردیے گئے آج تک کسی کو سزا نہیں ہوسکی۔ اس سے بڑی سزا اخبارات کو یہ دی گئی کہ جب تک معاملات طے نہیں ہو جاتے ان کو ان کے واجبات نہیں ملیں گے۔ بڑے اخبارات کو کروڑوں اور چھوٹے اخبارات کو لاکھوں کا جھٹکا لگا ہے۔ نئی حکومت کی جانب سے بھی اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اس پر طرہ یہ کہ دسمبر میں جس اخباری کاغذ کی قیمت 64 روپے کلو تھی وہ آج سوا سو روپے میں فروخت ہو رہا ہے اور مشکل سے مل رہا ہے۔ حکومت نے کاغذ کی قیمت کے حوالے سے یا کاغذ کی کسی اور ملک سے درآمد کے حوالے سے کیا اقدام کیا۔ یہ بحران تو سابق حکومت کے دور میں شروع ہوا نگراں وزرا نے بھی وعدے کیے اور بس۔ فیاض الحسن صاحب سے گزارش ہے کہ صحافیوں کو تنخواہ نہ دینے والوں کے اشتہار ضرور روکیں لیکن اشتہاروں کے پیسے تو دلوائیں تاکہ صحافیوں کو تنخواہ دی جاسکے۔ اور اخباری صنعت کو تحفظ دینے کے لیے کاغذ کی ارزاں نرخوں پر فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ صرف دھمکیاں دے کر معاملات ٹھیک کرنے کا رویہ درست نہیں۔