ایک اور ڈیل حقیقت یا افسانہ؟

342

مسلم لیگ ن کے راہنما رانا مشہود نے اسٹیبلشمنٹ اور مسلم لیگ ن کے درمیان معاملات طے پاجانے کی بات کرکے سیاسی تالاب کی لہروں میں ایک بار پھر ارتعاش پیدا کردیا ہے۔ رانا مشہود نے کچھ ایسا تاثر دیا کہ گویا کہ شہباز شریف کے وزیر اعظم نہ بننے کا فوج کو قلق ہے اور وہ اس احساس زیاں کی تلافی اب انہیں وزیر اعلیٰ پنجاب بنا کر کرنے کی جانب مائل ہو رہے ہیں۔ رانا مشہود کی بات سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ پنجاب میں اقتدار ملنے کی صورت میں میاں نوازشریف اور مریم نواز کا لب ولہجہ بھی بدل جائے گا۔ رانا مشہود کے اس بیان کی ہر جانب سے تردید ہورہی ہے۔ خود رانا مشہود نے اپنے موقف کو سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کرنے کی بات کی۔ ان کی گفتگو کی سب سے اہم فریق فوج نے اپنے ترجمان کے ذریعے رانا مشہود کی بات کی قطعی تردید کی اور اسے بے بنیاد قرار دیا اور یہ کہنا بھی ضروری سمجھا کہ اس طرح کی خبروں سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔ مسلم لیگ کی ترجمان مریم اورنگ زیب نے بھی اس بیان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے رانا مشہود کو وضاحت کے لیے طلب کیا ہے۔ اس معاملے کی ایک اور فریق حکومت کے ترجمان فواد چودھری نے اسے رانامشہود کی سیاسی گپ شپ قرار دیا۔
رانا مشہود کی گفتگو سے اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ فوج اور شریف خاندان کے درمیان ایک بار پھر ڈیل اور ڈھیل کا کھیل شروع ہو رہا ہے۔ اس ملک کی سیاسی تاریخ کے عین مطابق ایسا ہوجاتا ہے تو اس سے نہ کوئی آسمان گر پڑے گا نہ کوئی نئی تاریخ اور روایت قائم ہو گی۔ پاکستان کی تاریخ حکمران اور بااثر طبقات کے درمیان اس طرح کی آنکھ مچولی سے بھری پڑی ہے۔ ایک دور کے معتوب دوسرے دورے کے محبوب بنتے رہے ہیں اور ایک دور کے معتوب دوسرے دور میں مصلوب قرار پاتے رہے ہیں۔ خود فوج اور شریف خاندان کے
درمیان ماضی میں تیسرے فریق کی سہولت کاری سے کامیابی سے معاملات طے پاتے رہے ہیں۔ میاں نوازشریف اور مریم نواز کی ضمانت پر منظوری سے زیادہ ضمانت کی درخواست کے مقدمے میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیب کے پراسیکیوٹرز کا عدم دلچسپی کا رویہ باعث حیرت تھا۔ میاں نوازشریف اور مریم نواز کی ضمانت پر رہائی کے بعد اس طرح کی باتیں عام ہوئیں اور دونوں کی ضمانت ہوتے ہی فواد چودھری کا یہ کہنا معنی خیز تھا کہ اب لوگوں کو یہ بات سمجھ میں آگئی ہوگی کہ ہم نے میاں نوازشریف کا نام ای سی ایل میں کیوں ڈالا تھا۔ پہلا ابہام تو اس بیان ہی سے پیدا ہوا تھا جس سے یہ تاثر ملا تھا کہ ضمانت پر رہائی عمران حکومت سے بالا بالا ہی مسلم لیگ ن کی سخت گیر قیادت اور فوج کے درمیان معاملات طے پا رہے ہیں۔ اب عدلیہ کی طرف سے احتسابی عمل پر عدم اطمینان کے کھلے اظہار نے بھی اس تاثر کو تقویت دی ہے کہ پاکستان کے معاملات وحالات وہی نہیں جو پردے پر نظر آرہے ہیں بلکہ پردے کے پیچھے بھی
ایک دنیا ہے۔ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی طرح مسلم لیگ ن بھی ایک سیاسی اور زمینی حقیقت ہے۔ مسلم لیگ ن کا خمیر جس خطے سے اُٹھا ہے وہاں زیادہ دیر تک انقلابیت کا پرچم بلند نہیں رکھا جا سکتا۔ مسلم لیگ ن کا گزشتہ ماہ وسال میں اپنایا گیا یہ طرز ماؤ اور چی گویرا کی تصویروں تلے سیاست کرنے والے سندھ اور بلوچستان کے قوم پرستوں کے ہاں توچل سکتا ہے مگر وسطی پنجاب نہ اس طرز سیاست کا خوگر ہے نہ وہ تادیر انقلابی خوبو کا بوجھ برداشت کر سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن کو بھی اس تلخ زمینی حقیقت کا سامنا ہے اور اس طرز سیاست میں موافق سیاسی انداز وہی ہے جو میاں شہباز شریف اپنائے ہوئے ہیں۔
مسلم لیگ ن کو طاقت کے مدار میں واپس لانے کا کام شہباز شریف ہی انجام دے سکتے ہیں۔ شہباز شریف اور عثمان بزدار کا دکھ مشترک ہے کہ ان کے اپنے ہی انہیں سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ شہباز شریف کے اہل خانہ ہی چاہتے ہیں کہ سیاست میں ان کی واپسی کا درکھلنے تک ان کی قیادت ایک نقش ناپائیدار رہے اور پھر وہ فاتحانہ تب وتاب سے اس دیار میں داخل ہوں اور شہباز شریف خود بخود پیچھے ہٹتے چلے جائیں۔ یہ تجربہ ماضی میں دہرایا جا چکا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ رانا مشہود کا تعلق مسلم لیگ ن میں کس دھڑے سے ہے؟۔ اگر وہ میاں نوازشریف کے ہمنوا ہیں تو پھر ان کی باتوں کا مفہوم کچھ اور ہے اور اگر وہ شہباز شریف کے ساتھی ہیں تو پھر اس بیان کا مفہوم قطعی جدا ہے۔ ضمنی الیکشن سے تھوڑی سی دوری پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات طے پاجانے کی نوید میں اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک پیغام یہ بھی ہوسکتا ہے کہ، ایسا ہو بھی سکتا ہے اور مسلم لیگ ن اس کے لیے تیار بھی ہے۔ ایک پیغام دنیا کے لیے بھی ہو سکتا ہے کہ ملک میں اب بھی اصل طاقت اسٹیبلشمنٹ ہے اور سویلین نظام ایک سراب کے سوا کچھ نہیں گویاکہ دنیا کو یہ بتانا مقصود ہے کہ ملک میں اصل بالادستی فوج کی ہے اور یہ کہ ملک میں قاعدے قانون کے بجائے اب بھی ڈیل اور ڈھیل کی سیاست رائج ہے۔ شاید بیان کے اس پہلو کو محسوس کرتے ہوئے آئی ایس پی آر کے سربراہ نے ایسے کسی تاثر کی سختی سے تردید کرنے کی ضرورت محسوس کی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن میں ایک فاروڈ بلاک کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز کے عقابی موقف میں فاختاؤں کی ایک معقول تعداد کی سمت بدلنے کا امکان بھی موجود تھا اور اس بیان کے ذریعے فاختاؤں کو یہ بتانا مقصود ہے کہ عقابی سوچ بدل بھی سکتی اور معاملات بھی طے ہونے جا رہے ہیں۔ بیگم کلثوم نواز کی وفات کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں عقابی سوچ کسی حد تک متروک قرار پا رہی ہے۔ پنجاب کے ضمنی انتخابات جس ماحول میں ہو رہے ہیں مسلم لیگ ن عمومی طور پر اس ماحول میں انتظامیہ کے تعلق اور تعاون کے بغیر جیتنے کی عادی نہیں رہی۔ اس بار بدلا ہوا ماحول کئی مسائل کا باعث ہے اور اس ماحول کو کچھ اس انداز سے بدلنا مقصود ہے کہ انتظامیہ اور ووٹر کو اندازہ ہوجائے کہ پنجاب میں تو مسلم لیگ ن کا اقتدار چند قدم کی مسافت پر اور دوچار ملاقاتوں کی مار ہے۔