اعجاز اللہ خان کو کیوں پکڑا گیا ؟ 

410

یہ سوچ کر ہی دماغ ماوف ہورہا ہے کہ اعجاز اللہ خان کا قصور کیا تھا؟ انہیں ملک کی کون سی ایجنسی ان کے گھر سے مگر رات کی تاریکی میں کسی جرائم پیشہ فرد کی طرح اٹھا کر لے گئے۔ اعجاز اللہ خان تو انسانیت کی خدمت کا نمونا ہے۔ ممکن ہے کہ ہمارے معاشرے میں سماجی کام کو بھی ’’جرم‘‘ سمجھا جانے لگا ہو۔ اگر ایسا ہے تو فیصل ایدھی، انصار برنی، صارم برنی، ضیاء اعوان ایڈوکیٹ کو بھی جلد گرفتار کرلیا جائے۔
اعجاز اللہ خان کو جس طرح حراست میں لیا گیا ہے وہ کوئی نئی اور انہونی بات نہیں ہے۔ سیکڑوں افراد پہلے بھی اسی طرح حراست لیے جاچکے ہیں۔ اعجاز اللہ خان کے اہل خانہ کے مطابق فیڈرل بی ایریا میں واقع ان کے گھر پر رات تقریباً ساڑے چار بجے سادہ لباس میں لوگ زبردستی داخل ہوئے اور اعجاز کو اپنے ساتھ لے گئے۔ اعجاز اللہ خان تو اس شخصیت کا نام ہے جو اگر کسی کو مطلوب تھے تو انہیں فون کرکے بلا لیتے تو وہ دوڑے چلے جاتے اور مذکورہ ادارے کے لوگ انہیں پکڑنے کی ’’جدوجہد‘‘ سے بچ جاتے۔ مجھے یقین ہے کہ جس ادارے یا ایجنسی نے تقریباً 50 سالہ اعجاز اللہ خان کو اپنی گرفت میں لیا ہوگا وہ غلط فہمی میں لیا ہوگا۔ اس لیے امکان ہے کہ انہیں جلد گھر پہنچا دیا جائے گا۔
دکھ تو اس بات کا ہے کہ ملک کے چیف جسٹس پاکستان قانون پر عمل درآمد کے لیے اسپتالوں تک کے دورے کررہے ہیں مگر بعض سیکورٹی کے ادارے لوگوں کو بغیر کسی وارنٹ کے مجرموں کی طرح گھروں سے ایسے اٹھا کر لے جاتے ہیں جیسے جرائم پیشہ لوگوں کو اغواء کرکے لے جاتے ہیں۔ جی ہاں یہ اغوا جیسی واردات تو ہوئی۔ سادہ لباس میں مختلف گاڑیوں میں رات گئے گھروں میں گھسنا اور پھر مطلوب افراد کو لے جانا۔ کیا یہی قانون ہے؟ یقیناًچیف جسٹس کی نظر میں ایسی کارروائی بھی خلاف قانون ہوگی مگر سوال یہ ہے کہ ایسی کارروائیوں کو روکا کب جائے گا؟ ملک کے ادارے ملک میں سماجی کام کرنے والوں کو اگر اس طرح پکڑتے رہیں گے تو پھر کون فلاح و بہبود کے کام کرے گا؟ اعجاز اللہ خان جماعت اسلامی کے ذیلی ادارے الخدمت فاونڈیشن کے اسسٹنٹ سیکرٹری ہیں میں ان کو ذاتی طور پر گزشتہ کم و بیش 20 سال سے جانتا ہوں۔ اجتماعی ہی نہیں انفرادی طور پر بھی وہ لوگوں کی خدمت کے لیے کوشاں رہتے تھے وہ دوستوں کے دوست نہیں انسانیت کے دوست تھے۔ جب ایسے لوگوں کو گرفتار یا حراست میں لیا جاتا ہے تو ’’قانون مذاق لگتا ہے‘‘۔ بغیر کسی وارنٹ کے نامعلوم الزام میں کسی کو کسی بھی وقت کہیں سے بھی اٹھاکر لے جانا کس طرح قانونی کارروائی ہوسکتی ہے؟ مگر یہاں ایسا ہی کچھ ہورہا ہے۔ جس کی واضح مثال ’’مسنگ پرسنز‘‘ کا مقدمہ ہے۔ اس سلسلے میں ایک کمیشن بھی متحرک ہے۔ مگر اس کمیشن اور قانون پر عمل درآمد کرانے کی کوشش کرنے والوں سے زیادہ ’’لاقانونیت‘‘ پھیلانے والے زیادہ سرگرم نظر آتے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ تمیز کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ مجرم کون ہیں اور مجرم کو پکڑنے والے کون ہیں؟ بھاری جسامت کے اعجاز بھائی تو چند قدم دوڑ بھی نہیں سکتے پھر بھی انہیں اس طرح حراست میں لیا گیا جسے کوئی خطرناک دہشت گرد کو گرفتار کیا جاتا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ خفیہ اداروں کی بھی بعض اوقات یہ مجبوری ہوتی ہے کہ اسی طرح کی کارروائیاں کی جائیں۔ مگر اعجاز اللہ خان جیسی مشہور خدمت گار شخصیت کو اس طرح گھر سے پکڑ کر لے جانے کی کس قانون میں اجازت ہے۔ اعجاز اللہ خان کی گھر میں موجودگی بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں اطمینان تھا کہ ان کے خلاف کوئی کیوں اس طرح کی کارروائی کرے گا؟ باوجود اس کے کہ کچھ لوگ اعجاز کو سماجی خدمت کے حوالے سے دھمکیاں دے رہے تھے۔ اعجاز اللہ کے اہل خانہ کے مطابق یہ دھمکیاں انہیں فون کال پر ملا کرتی تھیں۔ اعجاز اللہ بھائی جیسی معصوم اور انسان دوست شخصیت کو اس طرح حراست میں لیے جانے سے میں اس خوش فہمی میں بھی مبتلا ہوں کہ سرکاری ادارے نے اعجاز کی حفاظت کے لیے یہ قدم مجبوراً اٹھایا ہو۔ بہرحال جو بھی بات اعجاز بھائی کے پس پشت ہو وہ سامنے آنی چاہیے اور انہیں جلد سے جلد گھر واپس بخیریت آنا چاہیے۔
میری نظر میں الخدمت فاونڈیشن کے ہنستے مسکراتے رہنما کا مبینہ اغواء یا انہیں حراست میں لینے کا واقعہ معمولی نہیں ہے مگر اس واقعہ پر حکومت اور سیاسی و سماجی جماعتوں کی خاموشی بھی میرے لیے باعث حیرت اور تشویش ہے۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے تو اس واقعے پر نہ صرف سخت ردعمل کا اظہار کیا بلکہ جلد سے جلد ان کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔ اگر خدانخواستہ اعجاز بھائی کو باقاعدہ گرفتار کیا گیا ہے تو انہیں کسی عدالت میں پیش کیا جانا بھی قانونی طور پر ضروری ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اعجاز اللہ خان سمیت تمام لاپتا افراد جلد سے جلد اپنے گھروں کو پہنچ جائیں۔ آمین۔