سب ملے ہوئے ہیں

433

عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ بحریہ ٹاؤن کی نظرثانی اپیل کی سماعت کررہی ہے۔ فیصلہ کیا ہوتا ہے، یہ بعد کی بات ہے لیکن ابھی تو ججوں کے تبصرے سامنے آرہے ہیں اور بیشتر مقدمات میں فیصلے سے پہلے کیے جانے والے تبصرے دلچسپ ہوتے ہیں لیکن ان سے یہ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ فیصلہ کیا ہوسکتا ہے۔ کبھی کہا جاتا تھا کہ جج نہیں بولتے، ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ لیکن تبصرے تو روزانہ شہ سرخیوں میں شائع ہوتے ہیں جن سے سب ہی محظوظ ہوتے ہیں۔ مذکورہ مقدمے میں جناب چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بحریہ ٹاؤن کراچی کو زمین دھوکے بازی سے دی گئی اور چاندی دے کر سونا لے لیا، ہم ٹھیک کہتے تھے کہ سندھ میں سب ملے ہوئے ہیں۔ یقیناً ایسا ہی ہے چنانچہ ان پر بھی ہاتھ ڈالا جائے جو ملے ہوئے ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ اقتدار میں ہیں یا در پردہ سندھ پر حکمرانی کررہے ہیں۔ بحریہ ٹاؤن کے منصوبے ملک ریاض کے ہیں اور یہ کوئی راز نہیں کہ ملک ریاض کی دوستیاں کس کس سے ہیں۔ بات صرف بحریہ ٹاؤن کی نہیں، سندھ میں جنگلات کی ہزاروں ایکڑ زمین قبضہ مافیا کے قبضے میں ہے۔ اس میں بھی بااثر طبقے ہی ملوث ہیں۔ اسلام آباد سے کراچی تک ناجائز قابضین کو بے دخل کیا جارہا ہے، مکانات گرائے جارہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب قبضے ہورہے تھے اور ناجائز عمارتیں تعمیر ہورہی تھیں تو حکومتیں کہاں تھیں، انتظامیہ کہاں سوئی ہوئی تھی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کدھر تھے؟ جب قبضے شروع ہوئے یا کوئی اور ناجائز کام ہوا تو اسے اسی وقت کیوں نہیں روکا گیا، تعمیرات گرانے اور قبضے چھڑانے سے پہلے انتظامیہ کے ذمے داروں اور قانون نافذ کرنے والے افسران کو پکڑا جائے اور مکانات ان کے گرائے جائیں۔ اگر بر وقت کارروائی ہوتی رہے تو قبضے کا دھندا آگے ہی نہ بڑھے۔ عدالت عظمیٰ نے سندھ میں ملی بھگت کا اظہار تو کردیا لیکن ملک بھر میں حکمرانوں کی ملی بھگت ہی سے سب کچھ ہورہا ہے۔ جب قبضے چھڑائے جاتے ہیں تو احتجاج ہوتا ہے۔ کراچی میں اسکیم 33 میں کئی ہاؤسنگ سوسائٹیوں پر اب بھی قبضہ ہے۔ بحریہ ٹاؤن کا معاملہ بہت بڑا ہے جس میں سیکڑوں ایکڑ زمین پر قبضہ کیا گیا ہے۔ ملک ریاض کے وکیل بڑے نامور قانون دان اور سیاسی شخصیت اعتزاز احسن ہیں اور بحریہ ٹاؤن کے دوسرے وکیل علی ظفر اور دیگر ہیں۔ علی ظفر نے تسلیم کیا کہ بحریہ ٹاؤن کے پاس ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی صرف 18 ہزار کنال زمین ہے جس کے لیے بحریہ ٹاؤن 5 ارب روپے دینے کو تیار ہے اور مزید اقدامات بھی کرے گی۔ 5 ارب روپے کوئی چھوٹی رقم نہیں ہوتی۔ یہ اعتراف ہے کہ کم ازکم 5 ارب روپے کی بدعنوانی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ علی ظفر نے بحریہ ٹاؤن کے جہاز کو ٹیکسی بنا رکھا ہے لیکن یہ ان کے اورموکل کا معاملہ ہے۔ کچھ اور لوگ بھی اپنی پارٹی کے اہل ثروت افراد کے جہاز میں گھومتے رہے ہیں جس پر یہ اعتراض ہوا کہ ہوائی جہاز کو رکشہ بنا لیا ہے، چیف جسٹس نے تو ٹیکسی ہی کہا ہے۔ علی ظفر نے عدالت عظمیٰ سے کہا کہ آپ ہرجانہ طے کردیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 1500 ارب روپے کا جرمانہ کردیتے ہیں جس سے ڈیم بنوا دیں۔ ملک ریاض نے رحم کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ پہلے ہی 7 ارب روپے جمع کرا چکا ہوں، مقدمہ نیب کو بھیجا تو لاکھوں لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔ یہ اربوں، کھربوں کا معاملہ ہے لیکن بحریہ ٹاؤن کو زمین دینے میں ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا بنیادی کردار ہے جو حکومت سندھ کی اجازت کے بغیر یہ کام نہیں کرسکتی تھی چنانچہ ایم ڈی اے کے افسران کو بھی پکڑیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ بحریہ ٹاؤن کو زمین دینے کے لیے کئی گوٹھ خالی کرائے گئے اور اس کام میں ملیر کے سابق ایس ایس پی راؤ انوار کا نام بھی لیا جاتا رہا ہے۔ بحریہ ٹاؤن کے بارے میں فیصلہ کیا آتا ہے لیکن جن لوگوں نے پلاٹ اور مکان بک کرائے ہیں وہ بڑی تشویش میں مبتلا ہیں۔ ایک خیال یہ بھی کیا جارہا ہے کہ ملک ریاض کے پیچھے اتنی طاقت ور شخصیت ہے کہ اس کی پکڑ آسان نہیں ہوگی۔