سری لنکا سے اساتذہ درآمد کرنے کی تجویز

467

پاکستان میں بھی 4 اکتوبر کو عالمی یوم اساتذہ منایا گیا جس کا آغاز 1948ء میں ہوا تھا۔ یہ دن منانے کا مقصد ایک طرف تو اساتذہ کی تکریم ہے اور دوسرا مقصد طلبہ کا یہ حق تسلیم کرنا ہے کہ انہیں تجربہ کار اساتذہ دیے جائیں۔ ظاہر ہے کہ تجربہ کار اور تربیت یافتہ اساتذہ بہتر تعلیم دیں گے۔ اس دن کی مناسبت سے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے فرمایا ہے کہ بہترین اساتذہ سری لنکا سے درآمد کیے جائیں گے۔ انہوں نے سری لنکن قونصل جنرل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت انگریزی میڈیم اور کیمرج اسکولوں کے لیے باصلاحیت اساتذہ تعینات کرنا چاہتی ہے، ہم صوبے میں معیاری تعلیم کے فروغ کے لیے ہر ممکن اقدام کررہے ہیں۔ یہ بڑی اچھی خواہش ہے لیکن اس میں یہ اعتراف واضح ہے کہ پاکستان میں قابل اور با صلاحیت اساتذہ نہیں ہیں چنانچہ انہیں درآمد کیا جائے گا۔ یہ صورتحال شرمناک ہے۔ پاکستان کو بنے ہوئے 71 سال ہوچکے ہیں لیکن کیا ہم اب تک باصلاحیت اساتذہ تیار نہیں کرسکے؟ خود پیپلز پارٹی 10 سال سے سندھ پر حکمران ہے اور کئی بار مرکز میں بھی حکمران رہ چکی ہے۔ اب تک معیار تعلیم کے فروغ کے لیے کیا کیا گیا۔ مراد علی شاہ کو تو معلوم ہی نہیں ہوگا کہ تحریک پاکستان میں اساتذہ اور طلبہ کا کتنا اہم کردار تھا اور پھر ان ہی لوگوں نے پاکستان میں آکر شعبہ تعلیم کو سنبھالا۔ پنجاب اور صوبہ سرحد کے سوا دیگر صوبوں میں تعلیم اورتعلم کا حال اچھا نہیں تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سری لنکا ہی سے کیوں اساتذہ درآمد کیے جائیں؟ یہ صحیح ہے کہ وہاں خواندگی کی شرح قابل رشک ہے لیکن مذہب، ثقافت اور زبان کا فرق آڑے آئے گا۔ وزیراعلیٰ کے مطابق یہ اساتذہ انگریزی میڈیم اور کیمبرج اسکولوں کے لیے درکار ہیں۔ گویا اردو میڈیم اور سندھی میڈیم سمیت سرکاری اسکولوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے گا اور طبقاتی فرق کو مزید بڑھاوا دیا جائے گا۔ دوسری طرف حکومت کی کوشش ہے کہ ملک بھر میں یکساں نصاب رائج کیا جائے۔ سندھ حکومت نے اسکولوں میں سندھی لازمی کردی ہے۔ انگریزی میڈیم اور کیمبرج اسکول پاکستانی معاشرے سے مطابقت نہیں رکھتے، یہ صرف حکمران طبقہ یا نام نہاد اشرافیہ پیدا کررہے ہیں اور ملک میں ہونے والی لوٹ مار میں اس طبقے کا بڑا حصہ ہے۔۔۔ اردو میڈیم اسکولوں سے پڑھنے والے عموماً احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ کیمرج اور انگلش میڈیم اسکول کھال اتارنے کا کارخانہ بن گئے ہیں۔ اس سے جان چھڑا لینی چاہیے۔ یہ معیاری تعلیم نہیں مغربی تعلیم دیتے ہیں اور ذہنی غلام تیار کرتے ہیں۔ بقول اقبال یہ وہ تیزاب ہے جس میں مسلمان کی خودی پگھل کر موم ہو جاتی ہے جسے جدھر چاہے موڑ لو اور ’’مولڈر‘‘ تو پہلے سے تیار ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ اساتذہ کو کہیں سے درآمد کرنے کے بجائے اپنے اساتذہ کی صلاحیت اور معیار کو بڑھایا جائے۔ یہ بھی معلوم کرلیا جائے کہ سری لنکا نے اپنے اساتذہ تیار کرنے کے لیے کس ملک سے ماہرین درآمد کیے تھے۔ اس سے پہلے وزیراعلیٰ صاحب نجی اسکولوں کی لوٹ مار کا نوٹس لیں۔ رکن سندھ اسمبلی عبدالرشید نے عالمی یوم اساتذہ کی مناسبت سے بہت معقول مشورہ دیا ہے کہ تعلیم کے ساتھ نئی نسل کی کردار سازی بھی کی جائے۔ کیا سری لنکن اساتذہ اس قوم کی کردار سازی بھی کریں گے، وہ قوم جو معلم اخلاق کی امت میں سے ہے۔