شہباز قفس میں

379

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف، دوسرے نمبر پر آنے والی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کے صدر اور سب سے بڑے صوبے پنجاب پر طویل عرصے تک حکومت کرنے والے میاں شہبازشریف کو گزشتہ جمعہ کو گرفتار کرلیا گیا۔ وہ قومی ادارہ احتساب ( نیب) کی تحویل میں ہیں اور اگلے ہی دن ان کا 10روزہ جسمانی ریمانڈ بھی حاصل کرلیا گیا۔ شہبازشریف کو لاہور میں 14 ارب روپے سے تعمیر ہونے والے آشیانہ اقبال ہاؤسنگ پروجیکٹ میں کروڑوں روپے کے گھپلے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ ان کے بڑے بھائی اور سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف ، ان کی بیٹی اور داماد بھی فی الوقت ضمانت پر ہیں اور ان کی سزائیں معطل کی گئی ہیں۔ اس طرح سابق حکمران خاندان پورا ہی الزامات اور مقدمات کی زد میں ہے۔ میاں نوازشریف کے سمدھی اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار بیرون ملک ہونے کی وجہ سے گرفتاری سے بچے ہوئے ہیں لیکن عدالت ان کی جائداد ضبط کرنے کا حکم دے چکی ہے اور موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ انہیں گرفتار کر کے لایا جائے گا۔ شہباز شریف کی اچانک گرفتاری کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ پاکستا ن میں جس نے بھی لوٹ مار کی اور قومی خزانے کو نقصان پہنچایا اسے قانون کی گرفت میں ضرور آنا چاہیے خواہ وہ کتنی ہی بڑی اوربا اثر شخصیت ہو۔ تاہم دوسرا پہلو شہباز شریف کی گرفتار ی کا وقت ہے۔ حزب اختلاف یہ نکتہ اٹھا رہی ہے کہ گرفتاری ضمنی انتخابات سے چند دن پہلے ہی کیوں کی گئی اور کیا اس کا مقصد ان انتخابات میں ن لیگ کو نقصان پہنچانا ہے۔ عام انتخابات سے پہلے نواز شریف اور ان کی بیٹی، داماد کو سزائیں سنا دی گئی تھیں اور ن لیگ کا الزام ہے کہ اس کی وجہ سے اس کی انتخابی مہم متاثر ہوئی ہے۔ اس الزام میں وزن تو ہے چنانچہ ن لیگ کی حریف پیپلز پارٹی کے صدر نشین بلاول زرداری نے بھی شہباز کی گرفتاری کو انتقامی کارروائی قرار دیتے ہوئے استفسار کیا ہے کہ ضمنی انتخاب سے قبل شہباز شریف کو گرفتار کرکے کیا ثابت کیا جارہا ہے؟ پیپلز پارٹی نے الزام لگایا ہے کہ حکومت عوام کو سہولت فراہم کرنے کے بجائے انتقامی کارروائی میں لگ گئی، اپوزیشن لیڈر کو حکومت کے کہنے پر گرفتار کیا گیا ہے۔ خورشید شاہ نے قومی اسمبلی میں قائدحزب اختلاف کی گرفتاری کو پارلیمان کی توہین قرار دیا ہے۔ کسی رکن قومی اسمبلی کی گرفتاری سے پہلے اسپیکر کو مطلع کرنا ضروری ہوتا ہے لیکن ذرائع کے مطابق یہ شرط پوری نہیں کی گئی البتہ گرفتاری کے بعد اسپیکر کو اطلاع دے دی گئی۔ چنانچہ حزب اختلاف کی جماعتوں نے فوری طور پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ حکومت کے ترجمانوں کا موقف ہے کہ نیب ایک آزاد ادارہ ہے اور شہبازشریف کو جن الزامات میں پکڑا گیا ہے وہ تحریک انصاف کی حکومت نے عاید نہیں کیے تھے بلکہ ن لیگ کی حکومت کے دوران ہی یہ مقدمات درج ہوئے تھے، ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ۔ جہاں تک نیب کا تعلق ہے تو اس کی کارکردگی پر چیف جسٹس بھی برہمی کا اظہار کرچکے ہیں ۔ شاید اسی لیے نیب نے اپنی کارکردگی کا ثبوت دیتے ہوئے بڑی عجلت میں شہباز شریف کو گرفتار کرلیا۔ وہ جمعہ کو ڈھائی بجے کے قریب صاف پانی کیس میں طلب کیے گئے تھے لیکن ایک گھنٹہ تفتیش کر نے کے بعد انہیں آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں دھر لیا گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کی گرفتاری کے لیے پہلے سے تیاری کرلی گئی تھی چنانچہ سابق پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد بھی موجودتھے جو پہلے ہی سے گرفتار ہیں ۔ شہباز شریف کہیں بھاگے نہیں جارہے تھے، پیشیوں پر باقاعدگی سے پیش ہوتے تھے اور جمعہ کو بھی حاضر ہوگئے تھے۔ انہیں گرفتار کرنے کے لیے فواد حسن فواد کو وعدہ معاف گواہ بنایا گیا اور شہباز سے سوالات کے دوران میں اسے سامنے بٹھا دیا گیا جس کا کہنا تھا کہ سب کچھ وزیر اعلیٰ کے حکم پر کیا گیا۔ لوگ اپنی جان بچانے کے لیے وعدہ معاف گواہ بن جاتے ہیں لیکن تحقیقاتی اداروں کو ایسے گواہوں کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب ان کے پاس جرم کا ٹھوس ثبوت نہ ہو۔ نیب کا الزام ہے کہ عوام کو سستے پلاٹ کا لالچ دے کر لوٹا گیا، الاٹمنٹ لیٹرز تک جاری نہیں کیے، شہباز رقم کا حساب نہیں دے سکے۔ ان پر بڑا الزام یہ ہے کہ انہوں نے من پسند کمپنی کو فائدہ پہنچانے کے لیے دوسری کمپنی کا ٹھیکا منسوخ کردیا جس سے قومی خزانے کو 60لاکھ روپے کا نقصان پہنچا۔ شہباز شریف کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے بچت کی ہے۔ سابق وفاقی وزیر سعید رفیق اور سلمان رفیق بھی طلب کر لیے گئے ہیں۔ شہبازشریف کی گرفتاری سے ن لیگ کے رہنما رانا مشہود کا یہ دعویٰ تو غلط ہوگیا کہ شہبازشریف نے اسٹیبلشمنٹ سمیت دیگر اداروں سے معاملات درست کرلیے ہیں اور بس دو ماہ بعد ن لیگ ہی کی حکومت ہوگی۔ تعلقات و معاملات ایسے درست ہوتے ہیں؟ حکومت کے لیے یہ تاثر دور کرنا آسان نہیں ہوگا کہ یہ انتقامی کارروائی ہے اور یہ نیازی نیب گٹھ جوڑ ہے۔ ماضی میں خود عمران خان عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ گٹھ جوڑ کا الزام لگاتے رہے ہیں ۔ تحریک انصاف کے نفس ناطقہ فواد چودھری نے دھمکی دی ہے کہ مزید بڑی گرفتاریاں ہونے والی ہیں۔ چھوٹے چودھری فیاض الحسن نے شادیانہ بجایا ہے کہ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ لٹیروں کو ضرور پکڑا جائے لیکن بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض نے تو 80لاکھ کا نہیں ، اربوں کا نقصان پہنچایا ہے۔ کراچی سمیت ملک بھر میں کتنی ہاؤسنگ اسکیمیں ہیں جو پلاٹ اور مکان دینے کے بہانے عوام کی رقمیں دبائے بیٹھی ہیں ۔ انہیں بھی پکڑیے۔ 1975ء میں بھی قائد حزب اختلاف عبدالولی خان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ شہباز کی گرفتاری میں حکومت کا ہاتھ ہو یا نہ ہو لیکن الزام اسی پر آئے گا۔