قصور اپنا نکل آیا!

282

 

 

عزت مآب چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے اس فرمان سے کون انکار کرسکتا ہے کہ کالا باغ ڈیم ملکی بقا اور خوش حالی کا ضامن ہے مگر مخالفین ملک کو خشک سالی میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں، ہم کالا باغ ڈیم سے کبھی دستبردار نہیں ہوسکتے۔ ڈیم کی تعمیر تحریک کی صورت اختیار کرچکی ہے، قوم کا ہر فرد سینہ سپر ہوچکا ہے۔ چیف صاحب نے ڈیمز مخالفین کو متنبہ کیا ہے کہ وہ غیر ملکی ایجنڈے سے باز نہ آئے تو آرٹیکل 6 متحرک ہوسکتا ہے۔ اور پھر ڈیمز مخالفین پر مقدمات چلائے جائیں گے۔ ہم چیف صاحب سے گزارش کرنا چاہیں گے کہ گا، گی، گے کا راگ سیاست دانون کو الآپنے دیں آپ عمل درآمد کرائیں۔ سیاست دان کالا باغ ڈیم کی مخالفت سے باز نہیں آئیں گے۔ کالا باغ ڈیم کی مخالفت ایک ایسا سادہ چیک ہے جس پر اپنی مرضی کی رقم درج کی جاسکتی ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ وطن عزیز میں سیاست کا مقصد دولت کمانا ہے۔ ہمارے ہاں رائج سیاست ایک ایسی تجارت ہے جس میں لاکھوں کی سرمایہ کاری کرکے اربوں کمانے کے وافر مواقعے موجود ہیں۔ یہ سہولت اور آسانی کسی اور کاروبار میں کہاں!۔ ہماری عدلیہ ازخود نوٹس لینے میں بہت مشہور ہے۔ اس معاملے میں اس کی مہارت اور چابک دستی ضرب المثال بن چکی ہے مگر اس نے کبھی سیاست دانوں کی بے تحاشا دولت مندی پر غور نہیں کیا۔ کرپشن کا سب سے بڑا ثبوت اور گواہی آمدن سے زیادہ اثاثوں کا موجود ہونا ہے۔
چیف صاحب نے نیب کے چیئرمین سے استفسار کیا ہے کہ نیب نے کسی بھی مقدمے کو منطقی انجام تک کیوں نہیں پہنچایا؟ نیب لوگوں کو صرف بدنام اور رسوا کررہی ہے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کی زد میں عدالت عظمیٰ بھی آگئی ہے۔ آصف علی زرداری مرد اوّل بننے سے قبل کیا تھے؟ آج کیا ہیں؟ آصف زرداری ہی پر کیا منحصر ہے کسی بھی سیاست دان کے اثاثوں پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوگی کہ نوے فی صد سیاست ارکان اسمبلی بننے سے پہلے ککھ پتی تھے آج کروڑ پتی اور ارب پتی ہیں۔ کیسے؟؟؟ اس کا جواب اور حساب تو عدلیہ ہی لے سکتی ہے۔ اختر مینگل کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 6 کا اطلاق ڈیمز مخالفین پر ہی نہیں آئین شکنوں پر بھی ہونا چاہیے تاکہ جمہوریت مستحکم ہوسکے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جمہوریت کو عدلیہ کیسے مستحکم کرسکتی ہے کیوں کہ جمہوریت اور جمہوری اداروں کی مضبوطی اور استحکام تو سیاست دانوں کی دیانت اور سیرت و کردار سے مشروط ہوتا ہے سو، یہ طے ہے کہ جب تک سیاست دان کاغذی پیراہن میں ملبوس رہیں گے جمہوریت برہنہ رہے گی۔ پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ ڈیمز ضرور بنائیں لیکن اعتراضات پر مطمئن بھی کریں۔ ڈیمز مخالفین کو ملک دشمن قرار دینے کی روش کو ترک کرنا پڑے گا۔ پاکستان ہمارا وطن ہے اس کی بقا اور استحکام ہماری ذمے داری ہے۔ مکالمہ سے کون انکار کرسکتا ہے مگر جہاں میں نہ مانوں کی روایت پتھر کی لکیر بن جائے وہاں مکالمہ بے معنی ہوتا، اگر حکومت اور عدلیہ بھاشا اور مہمند ڈیمز پر سیاست دانوں سے مشاورت کرے تو سیاست دان اسے بھی کالا باغ ڈیم کی طرح متنازع بنادیں گے۔ دودھ کے جلے کو چھاچ سے بھی ڈرنا پڑتا ہے۔ چیف صاحب کا موڈ خراب نہ ہو تو ہم یہ کہنے کی جسارت کریں گے کہ آبی ماہرین کو بلا کر استفسار کرنا چاہیے انہوں نے کالا پانی اور چھوٹا پانی نامی دریاؤں کا رُخ موڑنے کا مشورہ کیوں نہیں دیا؟ اور اگر کوئی دشواری ہے تو اس کا حل کیا ہے! کہتے ہیں ان دریاؤں کا رخ موڑ دیا جائے تو پاکستان کو اتنا پانی فراہم ہوسکتا ہے جو بھارت کے روکے ہوئے پانی سے زیادہ ہوگا۔ ہم یہ عرض بھی کرنا چاہیں گے کہ کالا باغ ڈیم سیاست دانوں کی انا کا مسئلہ بن چکا ہے سو، بہتر یہی ہوگا کہ ان کی انا کو ٹھیس نہ پہنچائی جائے۔ فی الحال کالا باغ کے بجائے کالا پانی اور چھوٹا پانی پر توجہ دی جائے اگر ہمارے ماہرین ان دریاؤں کا رخ موڑنے میں کامیاب ہوگئے تو کالا باغ ڈیم کے مخالفین کا وجود ہی بے معنی ہوجائے گا، ان کی پشت پناہی کرنے والے پشت دکھائیں گے تو مخالفین کے منہ بند ہوجائیں گے اور کالا باغ ڈیم کا راستہ کھل جائے گا۔