کسی خاندان میں ایک بچہ غیر معمولی تھا۔ بہت چھوٹا تھا تو والدین کو اندازہ نہیں ہو سکا۔ جب چار پانچ سال کا ہوا اور بولنے لگا تو والدین بہت پریشان ہوئے۔ اس کی ساری باتیں تو ٹھیک ہی تھیں۔ کھانا پینا، سونا جاگنا اور دیگر بچوں کے ساتھ رل مل جانا وغیرہ لیکن ایک بات وہ بہت تسلسل سے اور ہر منٹ کے بعد دہراتا تھا۔ ربڑ لاؤں گا، غلیل بناؤں گا، چڑیا ماروں گا۔ یہ تھا وہ جملہ جو ہمیشہ اس کے ورد زبان رہتا تھا۔ والدین نے نفسیاتی اسپتال سے رجوع کیا۔ انہوں نے معائنے کے بعد کہا کہ بچہ ٹھیک ہی ہے پھر بھی اسے ہمارے پاس اگر چھوڑ سکتے ہیں تو چھوڑجائیں ہم معاملے کی تہہ تک پہنچ کر اس کا علاج کریں گے۔ کیس معمولی نوعیت کا ہے۔ امید ہے جلد ٹھیک ہو جائے گا۔ پریشان ماں باپ کیا کرتے۔ اسپتال میں داخل کرادیا۔ علاج جاری رہا اور اس میں پانچ سال گزر گئے۔ ایک دن اسپتال سے فون آیا کہ آپ کا بچہ ماشااللہ ٹھیک ہو چکا ہے آکر لیجائیں۔ والدین اسپتال پہنچے۔ بچے کو والدین کے سامنے پیش کیا۔ والدین بہت خوش تھے۔ سوال کیا اب آپ ٹھیک ہو چکے ہیں تو اس خوشی میں آپ کی کیا فرمائش ہوگی۔ بچہ جو اب کافی بڑا ہو چکا تھا کہنے لگا کہ اب میں آپ کے ساتھ گھر جاؤں گا۔ پھر کہوں گا کہ ابا مجھے سائیکل دلائیں۔ والدین اس کی باتیں سن کر بہت خوش ہوئے کہنے لگے پھر کیا کروگے۔ میں اس سے بازارجایا کروں گا، میدان میں چلایا کروں گا، بچے نے جواب میں کہا۔ بچے کی بات سن کر والدین اور بھی خوش ہوئے۔ اچھا تو پھر؟، والدین نے بیٹے سے کہا۔ بچہ کہنے لگا کہ جب اس کے ٹائر ٹیوب پرانے ہو جائیں گے تو میں اس میں سے ٹیوب نکا لوں گا، ربڑکاٹوں گا، غلیل بناؤں گا، چڑیا ماروں گا۔ والدین کا جو حال ہوا سو ہوا، اسپتال کے سارے ڈاکٹر بھی پریشان ہو گئے۔ کہنے لگے آپ کچھ عرصے بچے کو اور ہمارے پاس رہنے دیں۔ والدین کیا کرسکتے تھے۔ دوبارہ اسپتال کے حوالے کرکے واپس گھر آگئے۔ پانچ سال بعد ان کی کال آئی کہ اب آپ کا بچہ بالکل ٹھیک ہو گیا ہے آکر لے جائیں۔ والدین پہنچے تو ماشااللہ بچہ جوان ہو چکا تھا۔ بہت ہنستا مسکراتا کمرے میں داخل ہوا۔ امی ابو اب آپ مجھے گھر لیجائیں یہاں میں بہت اکتا گیا ہوں۔ ہاں ہاں بیٹے ہم آپ کو لینے ہی آئے ہیں، والدین نے جواب دیا۔ اب میں آپ کے ساتھ جاؤں گا، ہنسی خوشی رہوں گا، اچھے اچھے کھانے کھاؤں گا، اچھے اچھے دوست بناؤں گا، کوئی کام دھندہ تلاش کروں گا۔ جب خوب سارے پیسے جمع ہوجائیں گے تو میں آپ سے کہوں گا کہ اپنے لیے اچھی سی بہو لے آئیں۔ والدین کی تو خوشی کی انتہا ہی نہیں تھی۔ ہاں ہاں کیوں نہیں۔ تیری شادی کے لیے ہم اچھی سی لڑکی پسند کریں گے۔ اس کے لیے بہت اچھی سی بری تیار کریں گے۔ بہت سارے جوڑے بنائیں گے۔ تمہارے لیے بھی بہت سارے سوٹ سلوائیں گے۔ لڑکی والوں کی طرف سے بھی تمہارے لیے بہت سوٹ آئیں گے۔ چلو بس اب گھر چلنے کی تیاری کرو۔ بچہ جو پہلے بہت خوش خوش نظر آرہا تھا کسی گہری سوچ میں غرق ہو گیا؟۔ والدین کچھ فکر مند ہو گئے۔ پوچھا بیٹے اچانک تم کس گہری سوچ میں چلے گئے۔ بچے نے والدین سے پوچھا، میرے لیے جو بہت سارے سوٹ آئیں گے کیا اس میں انڈر ویئرز بھی ہوں گے؟۔ اس عجیب اور غیر معقول سوال پر والدین ہی کیا اسپتال کے سارے ڈاکٹرز بھی چونک پڑے۔ کیوں انڈرویئرز کا تم کیا کروگے؟۔ سب ہی نے بیک وقت سوال کیا۔ کچھ نہیں، بس میں ان سب میں سے ربڑ نکالوں گا، غلیل بناؤں گا چڑیا ماروں گا۔
ملک کی تباہی کا سبب کرپشن ہے اور میں کسی بھی کرپٹ کو نہیں چھوڑوں گا۔ کم از کم اس بات کو سنتے سنتے آٹھ دس سال تو ہوہی گئے ہوں گے۔ 2013 کے الیکشن سے کافی پہلے اس کا چرچہ شروع ہوا تھا۔ ویسے تو کسی بھی حکمران پر پاکستان میں سب سے پہلے یہ الزام آیا تھا اور کرپشن کو بنیاد بنا کر جس حکومت کو لات مار کر تخت حکمرانی سے پھینکا گیا تھا وہ کسی سیاسی پارٹی کی حکومت نہیں تھی۔ ملک کے خاص الخاص سائنس دانوں نے ریاست پاکستان کی طرز حکومت کا ایک نیا دھماکا کیا تھا۔ ایسا انوکھا تجربہ کسی بھی جمہوریت میں نہ تو تاریخ میں کبھی اس سے قبل ہوا تھا اور نہ قیامت تک جمہوریت میں کسی ایسے تجربے کے دہرائے جانے کا امکان ہے۔ بات اتنی سی ہے کہ ’’کانی بھاتی بھی نہیں کانی کے بغیر رہتے بھی نہیں‘‘ کا محاورہ تو سب نے سناہی ہوگا۔ پاکستان میں خواہ فوجی حکومت ہی کیوں نہ ہو، کچھ ہی عرصے بعد وہ جمہوریت کی جانب لوٹتے ضرور نظر آتی ہے۔ لہٰذا ضیا الحق ایسا کیوں نہ کرتے۔ مارشل لا کے تحت جمہوریت کا تجربہ تو کرنا ہی تھا چناں چہ غیر جماعتی الیکشن کرا بیٹھے۔ پھر خود ہی ایک وزیراعظم بھی منتخب کر لیا اور یوں ایک غیرجماعتی الیکشن کے نتیجے میں محمد خان جونیجو زیر اعظم بنادیے گئے۔ پھر ہوا یوں کہ اپنی ہی بنائی ہوئی حکومت کو توڑنا بھی ضروری خیال کرتے ہوئے توڑنا بھی پڑگیا۔ جواز کرپشن کا الزام بنا اور یوں پاکستان کی سیاست میں اس ’’بدعت‘‘ کا آغاز ہوا جس کا سلسلہ اب قیامت تک بھی نہیں رک سکتا۔ اس کے بعد بھی ایک طویل دور ہے جس میں حکومتیں آتی اور جاتی رہیں۔ ایک دوسرے پر بڑے بڑے الزامات لگائے جاتے رہے اور مسند اقتدار پر چہرے بدلتے رہے۔ 2013 کے الیکشن میں ایک پارٹی ایسی بھی تھی جس کا ایک ہی نعرہ تھا ’’کرپشن‘‘۔ اس نعرے کا عروج 2018 کے الیکشن میں اتنا بلند ہوا کہ سب نعرے اس نعرے کے نیچے دب کر رہ گئے اور جس پارٹی نے اس کو جواز بنا کر اور کرپشن ختم کرکے پاک صاف لوگوں کو اقتدار میں لانے کا دعویٰ کیا اسے کامیابی نصیب ہوئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی تباہی کا سبب کرپشن ہی ہے لیکن یہ کرپشن سیاست دانوں پر ہی موقوف نہیں ہے۔ بد قسمتی سے احتساب کی زد میں سیاست دانوں کے سوا کوئی بھی نہیں آرہا پھر اس میں بھی کمال یہ ہے کہ وہی سیاست دان اس کا نشانہ بنے ہوئے ہیں جو اقتدار سے باہر ہیں۔ اس میں ایک اور بھی ’’عجب‘‘ ہے اور وہ یہ ہے کہ سارے کرپٹ سیاست دانوں کا تعلق مخالف جماعتوں سے ہے جبکہ مقتدر پارٹی کے ساتھ جتنی بھی پارٹیاں اور سیاست دان ہیں وہ سارے کے سارے نیک اور پارسا ہیں۔ الیکشن 2013 سے پہلے کی تقاریر میں بھی ایک پارٹی کے لیڈر کا سارا نچوڑ کرپشن۔ 2013 کے الیکشن کے بعد کے سارے جلسوں میں تقریروں کا نچوڑ ’’کرپشن‘‘۔ دھرنوں میں 126 دن کرپشن، 2018 کے الیکشن سے پہلے تک کرپشن۔ الیکشن کے بعد پہلی غیر سرکاری تقریر کا نچوڑ کرپشن۔ سرکاری خطاب کرپشن۔ کوئی اخباری بیان کرپشن۔ کوئی پریس کانفرنس کرپشن۔ پہلا غیر ملکی دورہ (سعودیہ) کرپشن۔ سندھ (کراچی) کا دورہ کرپشن۔ پنجاب کا دورہ کرپشن۔ خیبر پختون خوا کا دورہ کرپشن۔ بلوچستان (کوئٹہ) کا دورہ کرپشن۔ المختصر یہ کہ جہاں بھی جانا تو یہی فرمانا ’’ربڑ لاؤں گا، غلیل بناؤں گا، چڑیا ماروں گا‘‘۔ کچھ بھی نہیں تھے (بچے تھے)۔ کرپشن۔ کچھ بڑے ہوئے (سیاسی نقطہ نظر سے) تو بھی کرپشن۔ وزیراعظم تک بن گئے تو بھی کرپشن۔ کوئی ایک فورم بھی ایسا نہیں جہاں اس تکیہ کلام کو فراموش کیا گیا ہو۔ بے شک، ملک کی تباہی و بربادی کا یہی سب سے بڑا سبب ہے لیکن راقم کا خیال ہے کہ پاکستان یا دنیا کا ہر فورم اس لیے نہیں ہوتا کہ ہر مقام پر ایک ہی بات کی جائے۔ ملک کا حاکم بننے کے بعد تو ویسے بھی بہت سارے زاویہ ہائے نظر بدل جایا کرتے ہیں۔ ملک میں ایسے ادارے موجود ہیں جو کرپشن کے خلاف سرگرم عمل ہیں اور کرپشن کو ان ہی کی مدد سے دور کیا جاسکتا ہے۔ صرف منہ سے کہنے سے کوئی خرابی خوبی میں تبدیل نہیں ہو سکتی۔ ایسے سارے ادارے اپنا اپنا کام سرانجام پہلے بھی دیتے آئے ہیں اور اب بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ ہر ایک کا اپنا اپنا دائرہ عمل و اختیار ہے۔ سارے ادارے بے لگام نہیں بلکہ وہ دیے گئے قانونی اختیار سے بڑھ کر یا اختیارات سے ہٹ کر کام انجام نہیں دے سکتے۔ وہ ادارے پاکستان کی عدالتیں ہوں یا نیب یا لاانفورسمنٹ ایجنسیاں، بشمول پولیس، قانون میں دیے گئے اختیارات کے مطابق ہی کام کر سکتے ہیں۔ پورا پاکستان گواہ ہے کہ قانون میں بہت سارے سقم ایسے ہیں جہاں سارے کے سارے ادارے بے بس ہوجاتے ہیں اور وہ تمام کرپٹ لوگ قوانین کی ان ہی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک ہی لفظ کو چٹنی بنانے کے بجائے اسمبلی کے ذریعے ان قوانین کو بہتر بنایا جائے ورنہ کرپشن کا یہ سونامی کسی طور تھم نہیں پائے گا۔ ضروری ہے کہ ربڑ لاکر، غلیل بناکر چڑیا مارنے کی کہانی سے باہر آیا جائے۔ اداروں کو اپنا اپنا کام آزادی سے کرنے کا مکمل اختیار دیا جائے تاکہ وہ ہر کرپٹ فرد کو بلا امتیاز گرفت میں لے سکیں۔ عدالتوں کو آزاد کیا جائے، نیب کو آزاد کیا جائے، پولیس کے ایک ایک سپاہی کو آزاد کیا جائے۔ انصاف کو بہر لحاظ ایک ہی آنکھ والا بنایا جائے تب کہیں جاکر کرپشن کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا ورنہ مطلب کے نتائج کے علاوہ کوئی بھی نتیجہ سامنے نہیں آسکے گا۔