انصاف کے فیصلوں میں کہانیوں جیسا مزہ

176

 

 

اس شعر کے اصل مستحق تو الطاف حسین (بھائی) ہیں لیکن عدالتوں کی مہربانی سے مسلم لیگ ن بھی نورجہاں کا مزار ہوتی جا رہی ہے۔
بر مزار ماغریباں نے چراغ نے گلے
نے پر پروانہ سوزد، نے صدائے بلبلے
ن لیگ کے پروانے اور بلبل سب ہی نیب کو مطلوب ہیں۔ بہتر ہے مسلم لیگ ن کو ایک ہی بار پوری کی پوری نیب کے سپرد کردیا جائے۔ عشقے دی گلی وچوں کوئی کوئی لنگھدا۔ شہباز شریف صاف پانی کیس میں بیان ریکارڈ کرانے گئے آشیانہ ہاؤسنگ کیس میں پکڑ لیے گئے۔ گرفتاریاں نہ ہوئیں سرپٹ دوڑتے لطیفے ہوگئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں نواز شریف، ان کی صاحبزادی اور داماد کو نیب سے دی گئی سزا کی جو تفصیلات فراہم کی گئی ہیں اور جس طرح فیصلہ دیا گیا ہے اس کے بعد نیب کو تو بس اب ایک مذاق ہی سمجھو۔ مذاق۔ عدل کے ساتھ مذاق۔ لوگ حیران ہیں اس طرح بھی فیصلے دیے جاتے ہیں۔ یہ تو اس کا حشر کیا گیا ہے جو اس ملک کا تین مرتبہ وزیر اعظم رہ چکا ہے۔ عام لوگوں کے فیصلے، عام لوگوں کا حال۔۔۔ جیسے جال میں پھنس کر مچھلی تڑپتی ہے۔ ہماری موتیوں والی سرکار پہلے ایک تھی۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ۔ اب دو ہوگئی ہیں۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ اور عدالتی اسٹیبلشمنٹ۔ کس کی چیخ نکلوانی ہے اور کس کی زبان بند رکھنی ہے اس کا فیصلہ پہلے صرف فوجی سرکار کرتی تھی اب با ادب با ملاحظہ کے زمرے میں اعلیٰ عدلیہ بھی شامل ہے۔ 14اکتوبر کو ضمنی الیکشن ہورہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے مل کر تحریک انصاف کا مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ متحدہ اپوزیشن بھی سنا ہے تشریف لارہی ہے۔ سنا ہے تشریف آوری آخری مرحلے میں ہے۔ پچھلے چند دنوں میں اسلام آباد میں شہباز شریف کی سرگرمیاں بھی ناگن کو محبوبہ قرار دینے جیسی تھیں۔ ان سرگرمیوں کو خصوصی اہمیت کا حامل قرار دیا جارہا تھا۔ قومی اسمبلی کے فورم پر بھی وہ شعلہ بن کر بھڑکنے کی کوشش کررہے تھے لیکن اس کے باوجود شہباز شریف کی گرفتاری کسی کے بھی حاشیہ خیال میں نہ تھی۔ مور پھر ناچ اٹھا۔ عدالتیں پھر جذباتی ہوگئیں۔ شہباز شریف کی گرفتاری پر نواز شریف نے کہا ہے ’’مخالفین جو سلوک آج کررہے ہیں کل اس کے لیے تیار رہیں۔‘‘ اس تنبیہ میں نکتہ یہ پوشیدہ ہے کہ کہانی الٹے قدموں بھی چلتی ہے۔ کل یہ کہانی محترمہ بے نظیر اور نواز شریف کے درمیان تھی۔ کبھی یہ لاچار کبھی وہ مجبور۔ کبھی وہ مسکراتے ہوئے کبھی یہ گلے میں اٹکتی صدا۔ محترمہ تو رخصت ہوئیں ان کی جگہ عمران خان نے لے لی۔ اکیلے عمران خان نے نہیں۔ عمران خان اکیلے ہوتے تو نواز شریف نمٹ لیتے۔ عمران خان کے ساتھ فوج اور عدلیہ بھی ہے۔ اب ان سے کیسے نمٹا جائے۔ سابقہ حکمرانوں کی مصیبتوں میں دن دونی رات چوگنی ترقی ہورہی ہے۔ عوام کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے جب سے تبدیلی سرکار آئی ہے کون زیادہ مشکل میں ہے۔ عوام یا اپوزیشن۔ بھینسوں کی پرائیوٹائزیشن بھی ہوگئی، سرکاری گاڑیوں کی نیلامی کا بازار بھی سج گیا۔ گورنر ہاؤسز بھی عوام کی حیرت اور حسرت میں ڈھل گئے۔ حکمران خوش وعدے پورے ہوگئے۔ اک آپ ہنسے، اک نین ہنسے، اک نین کے بیچ ہنسے کجرا۔ عوام وہی آبدیدہ کے آبدیدہ۔ یہ تھے وہ مشکل فیصلے پچھلے بائیس برسوں سے سیاسی جدوجہد کے دوران موجودہ حکمران جنہیں سینوں میں دبائے حسرت آمیز سانسیں نکال رہے تھے۔ نہ کوئی منصوبہ بندی، نہ کوئی حکمت عملی۔ بس اندھے کی لاٹھی ہے جدھر گھوم جائے۔ جو زد پر آجائے۔ عدالتوں کے بھی یہی طیور ہیں۔ بنی گالا کی تجاوزات ہوں تو ریگولرائز کرانے کی استدعا کی جاتی ہے اور اگر غریب کی تجاوزات ہوں تو پھر کرینیں، ٹریکٹر اور ٹرالی اور یہ دعوے کہ اربوں روپے کی زمین غریبوں سے واگزار کرالی گئی۔ بجلی مہنگی، گیس مہنگی، اشیاء صرف مہنگی ہی نہیں بہت مہنگی۔ قصہ امید ہے کہ مختصر سے مختصر ہوتا جارہا ہے۔ تحریک انصاف کے ہیرے موتیوں اور دیگر جماعتوں کے اراکین، وزیر وزراء میں کیا چیز مختلف ہے۔ کون سے انقلابی اقدامات ہیں جو اب تک کیے گئے ہیں جو سابقہ حکومتوں کا شعار نہیں رہے۔ کل بھی بے تحاشا جھوٹ بولے جارہے تھے آج بھی بے تحاشا جھوٹ بولے جارہے ہیں۔ جو جھوٹ بولے گا وہ چوری بھی کرے گا۔ یہ کل بھی سچ تھا یہ آج بھی سچ ہوگا۔ کشکول اور بھیک سے پہلے بھی دل کی کلی کھلتی رہی تھی آج بھی نظر اسی کلی پر جاکر ٹکتی ہے۔ پہلے بھی جو طریقہ واردات تھا آج بھی وہی ہے۔ گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا۔ بار بار بجلی کے نرخ بڑھانے کے اعلانات کیے گئے، واپس لیے گئے اور پھر بڑھادیے گئے۔ منی بجٹ میں بے شمار اشیا کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کردیا گیا۔ یہ آثار ہیں طواف کوئے ملامت کے جسے عرف عام میں آئی ایم ایف کہا جاتا ہے۔ 27ستمبر سے لے کر 4اکتوبر تک آئی ایم ایف اسلام آباد میں ٹھیرا رہا۔ مزید ہدایات، مزید تجاویز، مزید احکا مات۔ اسی دوران برادر ملک سعودی عرب کو بھی ایک تواتر سے ’’اوصنم، اوصنم‘‘ پکارا گیا۔ متضاد دعوے۔ کوئی وزیر کچھ کہتا اور کوئی کچھ اور۔ کوئی ٹھوس بات اور نہ کوئی تحریری معاہدہ۔ سعودی عرب کی طرف سے خاموشی لیکن ہمارا وہ حال کہ اس اعتراف سے رس گھل رہا ہے کانوں میں وہ اعتراف جواس نے ابھی کیا بھی نہیں معاشی محاذ پر مشکلات اور عوام کا دم گھوٹنے والی سرگرمیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے نیب کے تعاون سے شہباز شریف کی گرفتاری کا ڈراما کیا گیا۔ جس کے انتظامات پہلے سے کرلیے گئے تھے۔ طلب صاف پانی کیس میں کیے گئے، ایک گھنٹہ تفتیش کے بعد گرفتار آشیانہ کیس میں کرلیے گئے۔ فواد حسن فواد کو وعدہ معاف گواہ بناکر پہلے ہی لاکر بٹھا دیا گیا تھا۔ انصاف کے فیصلوں میں کہانیوں جیسا جادو۔ مزہ ہی مزہ۔ مزہ نہ آئے تو پیسے واپس۔ پیسوں کی واپسی کا تقاضا آج کے تاجداروں سے بھی کیا جائے گا لیکن بعد از اقتدار۔ یہی نیب کرے گا۔ لیکن اس وقت نیب کسی اور کا کھلونا ہوگا۔ سیاسی محاذ پر حکومت کچھ بھی ڈلیور کرنے میں کا میا ب نظر نہیں آرہی۔ الیکشن سے پہلے سیاسی مخالفین کو پہلے حکومتیں خوفزدہ کرتی تھیں، اٹھاکر غائب کروا دیتی تھیں اور بدنام ہوتی تھیں۔ اب یہی کام بہ انداز دگر کیا جارہا ہے۔ الیکشن سے پہلے فریق مخالف کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار کرواکر منظر سے غائب کردیا جائے۔ انصاف کا بھی بول بالا۔ حکومت کے پاس بھی جواز کہ یہ کام ہم نے نہیں کیا۔ عدالتی عمل اور فیصلہ ہے جس میں خیر سے عدالتیں آزاد ہیں۔ الیکشن کے من پسند نتائج آجائیں گے تو نواز شریف کی طرح شہباز شریف بھی باہر آجائیں گے۔ کہانی میں موڑ بھی تو آتے ہیں۔ مسلم لیگ ن میں عرصے سے دو بیانیے متوازی طور پر چل رہے تھے۔ ایک نواز شریف کا بیانیہ اداروں سے ٹکراؤ والا۔ ناز اٹھانے سے انکار۔ احکامات ماننے سے گریزاں۔ سوالی بن کر اسٹیبلشمنٹ کے در پر جانے سے گریزاں۔ دوسرے شہباز شریف کا بیانیہ تھا حافظا گر وصل خواہی، صلح کن با خاص وعام با مسلماں اللہ اللہ با برہمن رام رام
شہباز شریف کا نکتہ نظراسٹیبلشمنٹ اور ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے، حکومت کو کام کرنے کا موقع دینے اور اپوزیشن کے مثبت کردار پر مبنی رہا ہے۔ ان کی گرفتاری کے بعدان کا بیانیہ کمزور اور نواز شریف کا تصادم اور ٹکراؤ پر مبنی بیانیہ مضبوط ہوا ہے۔ جس سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی اور تصادم میں اضافہ ہوگا۔ اس تصادم کو حکومت نے خود دعوت دی ہے۔