احتساب پر شور کیوں اور تبدیلی کیا؟ 

258

ملک میں سخت احتساب کا سلسلہ تو مسلم لیگ نواز کے دور میں 2017 ہی سے شروع ہوچکا تھا جو تاحال جاری ہے اور اسے جاری رہنا چاہیے کیوں کہ جب تک کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوگا اور کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی اس وقت تک ملک میں مثبت تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ جمہوریت اور جمہوری عمل کا ایک یہی تو بڑا فائدہ ہے کہ کرپٹ لوگ چھن کر چھٹتے جاتے ہیں۔ مگر ہمارے ملک کی ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ یہاں تمام سیاست دان کرپشن کے خلاف باتیں کرتے ہیں اور ختم کرنے کے لیے اقدامات کے دعوے بھی کیا کرتے ہیں۔ لیکن جب احتسابی عمل میں جکڑے جائیں تو اسے سیاسی انتقام کہتے ہیں جیسے ان دنوں شدت سے شہباز شریف اور ان کے حمایتی کہہ رہے ہیں۔ کچھ عرصے قبل یہ جملے نواز شریف، مریم نواز اور صفدر نواز کی گرفتاری کے بعد بھی سنے گئے تھے۔ حالاں کہ ان شخصیات کی گرفتاری کا سیاست سے اور نہ ہی حکومت سے تعلق ہے۔ نواز شریف ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کے فیصلے کے تحت گرفتار ہوئے اور اب شہباز شریف بھی اسی عدالت کے حکم پر دس روزہ ریمانڈ پر ’’اندر‘‘ ہیں۔ اگر نواز شریف اور ان کی بیٹی اور داماد کی گرفتاری سیاسی تھی تو اس وقت مسلم لیگ نواز ہی کی حکومت تھی۔ اپنی حکومت میں گرفتاری کو سیاسی گرفتاری نہیں کہا جاسکتا اس لیے اس شدت سے واویلا نہیں کیا گیا۔ جب اُس وقت یہ گرفتاریاں سیاسی نہیں تھی تو اسی احتساب عدالت سے شہباز شریف کی گرفتاری کس طرح سیاسی ہوگئی؟
سچ تو یہ ہے کہ آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں شہباز شریف کو پہلے ہی گرفتار ہوجانا چاہیے تھا کیوں کہ وہ اس مقدمے میں نامزد تھے جب کہ ان کے سیکرٹری فواد حسن گرفتار ہوچکے تھے۔ فواد حسن کی گرفتاری کے بعد شہباز شریف نے اسی طرح خاموشی اختیار کی اور کوئی بڑے ردعمل کا اظہار نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے فواد حسن نے شہباز شریف کے خلاف بیان دیدیا اور وہ گرفتار ہوگئے۔ شہباز شریف کے حوالے سے یہ تاثر اس وقت بھی قائم ہوگیا تھا جب نواز شریف گرفتار ہوئے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب نوز شریف بھی شہباز کی گرفتاری پر کوئی بڑا ردعمل ظاہر نہیں کررہے۔ مگر ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کی گرفتاری سے وزیراعظم عمران خان کچھ پریشان نظر آئے اور انہیں ہنگامی پریس کانفرنس کرکے یہ وضاحت کرنی پڑی کہ نیب ان کے ماتحت نہیں ہے اس لیے یہ نہ تو سیاسی گرفتاری ہے اور نہ ہی اس کا حکومت سے کوئی تعلق ہے۔ تاہم یہ بات درست ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور ان کے ساتھی تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے سے قبل اور بعد میں بھی ایک سے زاید مرتبہ اس بات کا عزم کر چکے تھے کہ ’’کرپٹ عناصر اور ملک کو لوٹنے والے چوروں اور ڈاکوؤں کو پکڑیں گے‘‘۔ اب نواز شریف اور شہباز شریف یا دیگر گرفتار مجرمان اور ملزمان چور اور ڈاکو ہیں یا نہیں یہ بات وزیر اعظم عمران خان بتاسکتے ہیں یا نواز شریف اور شہباز شریف واضح کرسکتے ہیں۔ چوں کہ سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کو عام الفاظ میں چور ڈاکو ہی سے تشبیہ دی جاتی ہے اس لیے جو بھی ایسا کرے گا وہ عام لوگوں کی نظر میں چور ڈاکو ہی کہلائے گا۔
عمران خان کے وزیراعظم بننے اور ملک میں تحریک انصاف کی حکومت کے قائم ہونے کے بعد ذرائع ابلاغ کی جانب سے خصوصی طور پر اور عام لوگوں کی جانب سے ہمیشہ کی طرح منفی پروپیگنڈا زوروں پر ہے۔ میری نظر میں یہ بھی ایک ’’تبدیلی‘‘ ہے۔ کیوں کہ اب تک کسی جمہوری کیا غیر جمہوری حکومت کے آنے کے ایک ماہ بعد ہی حکومت کے خلاف منفی پروپیگنڈے کی بازگشت کی کم سنائی دی گئی تھی۔ یہ پہلی بار ہورہا ہے کہ مثبت نتائج کے لیے اس قدر بے چینی اور جلد بازی کی جارہی ہے۔
تبدیلی کے حوالے سے میں یہاں صرف ’’ٹیکس نیٹ ورک‘‘ کا ذکر کروں گا جس کے تحت کسی بھی ملک کی ترقی اور تنزلی کار فرما ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے پوری قوم کو ٹیکس نیٹ ورک پر لانے کی کبھی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی گئی جس کے نتیجے میں ملک کی اپنے ذرائع آمدنی میں اضافہ نہیں ہورہا ہے حالاں کہ تمام کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ رکھنے والے پاکستانیوں کو ٹیکس نیٹ پر اس کارڈ کے ذریعے لایا جاسکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ نان فائلر کو گاڑیاں خریدنے سے روکنے کے بجائے انہیں سی این آئی سی کے ذریعے انکم ٹیکس فائلر کے دائرے میں لائے تاکہ جو شخص عام کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ رکھ کر کار خریدی سکتا ہے وہ جو چاہے ضرورت کی چیز خرید سکے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس مقصد کے لیے ایف بی آر کے ساتھ نادرا کے عملے کو بھی بٹھایا جائے تاکہ درست طریقے سے ٹیکس دینے کے قابل افراد کی نشاندہی بھی ہوسکے۔ جب حکومت ایسا کرے گی کرپشن کے مواقع بھی کم ہوجائیں گے۔ بینکنگ کا نظام بھی اسی ایک طریقے سے بہتر ہوسکے گا۔ لیکن جب تک یہ نہیں کیا جاسکتا حکومت کو ناں فائلر کو گاڑیاں خریدنے کی اجازت دینی ہوگی تاکہ مقامی آٹو موبائل پروڈکٹ بھی فروغ پاتی رہے ساتھ ہی مثبت تبدیلی کی بازگشت آئی رے آئی رے تبدیلی آئی رہے کی گونج بھی برقرار رہے۔