وہی بپھرا ہوا بکھرا ہوا دن

224

 

احمد مشتاق کے اشعار سے آغاز کرتے ہیں
وطن بدلا مگر بدلے نہ حالات
وہی دنیا وہی اس کے سوالات
وہی بپھرا ہوا بکھرا ہوا دن
وہی سہمی ہوئی سمٹی ہوئی رات
کبھی یہ کہہ کے دیتا ہوں تسلی
سحر ہوگی بدل جائیں گے حالات
کبھی یہ سوچ کر ہنستا ہوں دل میں
کہاں جائیں گے یہ ارض وسماوات
پہلے مصرع کو اس طرح پڑھ کر دیکھیے ’’حکومت بدلی مگر بدلے نہ حالات‘‘ بات واضح ہوجائے گی۔ پرویز مشرف کے دور میں بتایا جارہا تھا کہ ہماری مشکلات کی وجہ فوجی حکومت ہے۔ اس وقت ایک ہی نغمہ کانوں میں رس گھولتا تھا۔ ایک ہی جستجو ہر دل میں بسی تھی۔ جمہوریت۔ کالے کوٹ بروئے کار آئے۔ سونی محفل کو گرما دیا۔ جمہوریت قہقہہ لگاتی زرداری صاحب کی صدارت میں زیر مونچھ مسکراتی آموجود ہوئی لیکن تھوڑے ہی عرصے میں آنکھیں بھر آئیں۔ جمہوریت کی عشوہ گری پھر بھی ہمیں محبوب رہی۔ محبوبہ کے ہزار نام کبھی گلبدن کبھی دل آرام۔ جمہوریت اور کرپشن موسیرے (خالہ زاد) بھائی! لیکن کیا فرق پڑتا ہے۔ سانپ سے درویش کی محبت کی طرح جمہوریت سے ہماری محبت پھر بھی باقی رہی ہر چند کہ رگوں میں ٹھنڈ سرایت کرتی چلی گئی۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے سانپ اور درویش کا قصہ سن لیجیے: ایک طوائف کے بار بار منع کرنے کے باوجود ایک درویش نے سانپ پال رکھا تھا۔ ایک دن سانپ نے اپنا تمام زہر درویش کی رگوں میں اتاردیا۔ درویش نے سانپ کو مارنے کے بجائے اسے معاف کردیا اور کہا ’’اچھا دوست ہم چلے۔ خداحافظ۔ تم آزادی سے زندگی بسر کرو۔‘‘ طوائف نے پوچھا ’’کیا آپ کو اب بھی سانپ سے محبت ہے؟‘‘ درویش نے ہوش وحواس کھونے سے پہلے جواب دیا ’’کیوں نہیں، اتنی سردی تو شاید قبر میں بھی نہ لگے گی۔‘‘ جمہوریت کے باب میں ہمارے رویے بھی درویش کی مثل ہیں۔ گھر اور جسم وجاں زندگی کی حرارت سے محروم ہوتے جارہے ہیں لیکن فریفتگی اور جذبوں کا وہی عالم۔ نواز شریف دن دونی رات چوگنی ترقی اور سی پیک کا جادو لیے تشریف لے آئے۔ لگا ناؤ گھاٹ پر آلگی۔ سسکیاں قابو میں آنے لگیں لیکن پھر پناما لیکس کی پر چھائیوں نے میاں نواز شریف کے اقتدار کو بھی پر چھائی بنادیا۔ اب عمران خان اقتدار کی انگوٹھی میں بیش قیمت ہیرے کی طرح جڑے ہیں۔ پرویز مشرف کی آمریت ہویا زرداری، نواز شریف اور عمران خان کی جمہوریت نظام ایک ہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام۔ چہرے بدل رہے نظام وہی ہے۔ لہٰذا غریبوں کے حالات بہتر ہونے کے بجائے ابتر ہوتے جارہے ہیں۔
ہر آنے والی حکومت سے توقعات باندھی جاتی ہیں مگر عمران خان کی حکومت سے توقعات کچھ زیادہ ہی سوا ہیں۔ اس کی وجہ عمران خان کے دعوے ہیں۔ آج دعوے حقیقتوں کے پل سے گزرنے کے بعد لاچاری اور مجبوری کی تصویر ہیں۔ ایسے میں مخالفین ہیں کہ خندہ زن۔ جانے کس کس کی باچھیں کھلی ہوئی ہیں۔ کیا کیا باتیں یاد دلائی جارہی ہیں۔ سال بھر پہلے عمران خان کہتے تھے ’’آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے خودکشی کرلوں گا‘‘ آج کہتے ہیں ’’آئی ایم ایف کے پاس جانا ضروری ہے‘‘۔ عمران خان ہی نہیں ان کے وزیر وزراء بھی اس معاملے میں طاق ہیں۔ سال بھر پہلے اسد عمر کہا کرتے تھے ’’پٹرول کی قیمت 46روپے فی لٹر ہونی چاہیے۔ حکومت بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتیں بڑھا کر اربوں روپے کما رہی ہے‘‘۔ آج اسد عمر فرمارہے ہیں ’’سابقہ حکومت نے بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتیں نہ بڑھا کر قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا ہے‘‘۔ پہلے سائیکل کی خوبیاں بیان کی جاتی ہیں آج وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کہتے ہیں جہاز کی اعلیٰ ترین کلاس میں سفر کرنا میرا حق ہے۔ پہلے میرٹ میرٹ پکارا جاتا تھا آج بزدار بزدار کی صدا ہے۔ کاروبار حکومت کا فہم وہ نہیں رکھتے، قوت فیصلہ سے وہ لونڈیوں والا سلوک کرتے ہیں، نظام حکومت کی پیچیدگیاں ان کے سر کے اوپر سے گزر جاتی ہیں۔ اپنا اچھا برا بیان کرنے کی استعداد تک وہ نہیں رکھتے۔ یہ تمام صلاحیتیں آج میرٹ ہیں کیوں کہ وہ خان کی پسند ہیں۔
عمران خان کی حکومت پاکستان کی پہلی حکومت نہیں ہے جو آئی ایم ایف کے پاس جارہی ہے۔ پہلے کہا گیا ہم چین کے پاس جارہے ہیں۔ پھر کہا گیا سعودی عرب مدد کو آرہا ہے۔ پھر دیگر ذرائع آزمانے کا عندیہ دیا گیا لیکن بالآخر رقیب کے در پر جانا ہی پڑا۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بنیادی شرائط پر پہلے ہی عمل شروع کردیا گیا تھا۔ بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے ترقیاتی اخراجات میں 75ارب روپے کی کٹوتی، گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ، اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں ایک فی صد اضافہ، ضمنی بجٹ میں 83ارب روپے کے نئے ٹیکس آئی ایم ایف کے ناز اٹھانے کے مترادف ہیں۔ روپے کی قدر کو آزاد رکھنے اور مارکیٹ کو اس کی قیمت کا تعین کرنے کا اختیار دینے کی آئی ایم ایف کی شرط کی تکمیل کے نتیجے میں ملکی تاریخ میں پہلی بار ڈالر نو روپے تیرہ پیسے مہنگا ہوگیا۔ انٹر بینک میں ڈالر133.50 روپے کا ہوگیا۔ پاکستان کو جو مسائل درپیش ہیں ایک غیر معمولی قیادت ہی ان سے نمٹ سکتی ہے۔ ہر طرف بے یقینی کا عالم ہے۔ عقل وخرد پر جوش وجنوں غالب ہے۔ ممکن ہے وقت کے ساتھ حالات بہتری کی طرف مائل ہو جائیں۔ تب تک غریبوں کے لیے
وہی بپھرا ہوا بکھرا ہوا دن۔۔۔ وہی سہمی ہوئی سمٹی ہوئی رات