سرسید، غلامی اور جمہوریت

408

 

 

سرسید کی غلامی پر ایک کالم میں گفتگو ہوچکی ہے مگر سرسید غلامی کو پسند نہیں کرتے اس سے عشق کرتے ہیں اور غلامی ان کے یہاں ایک ایسے ذہنی اور نفسیاتی براعظم کی حیثیت رکھتی ہے جسے کولمبس بھی ایک کوشش میں مکمل طور پر دریافت نہیں کرسکتا۔ مثلاً سرسید نے ایک جانب غلامی کو اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے۔ دوسری جانب وہ غلامی کو دائمی سمجھتے تھے، لیکن غلامی کے سلسلے میں سرسید کا مسئلہ صرف اتنا سا نہیں تھا، غلامی کے حوالے سے سرسید نے اور کئی اہم باتیں کہی ہیں، مثال کے طور پر انہوں نے ایک جگہ فرمایا۔
’’انگریزوں نے ہندوستان کو اور اس کے ساتھ ہم کو فتح کرلیا ہے اور جس طرح ہم نے اس ملک کو تابع دار یا غلام بنالیا تھا اسی طرح انہوں نے ہم کو بھی تابع دار یا غلام بنالیا ہے۔ پھر کیا یہ اصول سلطنت کے مطابق ہے کہ وہ ہم سے پوچھیں کہ ہم برما جا کر لڑیں یا نہ لڑیں؟ ایسا کبھی ہوا ہے اور سلطنت کا کوئی اصول کے موافق ہے؟‘‘
(افکار سرسید۔ ازضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 245)
جغرافیہ ایک مردہ چیز ہے اس کے برعکس انسان ایک زندہ شے ہے۔ چناں چہ جغرافیہ فتح ہو یا آزاد اسے اس سے کیا فرق پڑتا ہے مگر انسان کی آزادی اور غلامی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آزادی زندگی ہے اور غلامی موت۔ آزادی میں انسان اقبال کے الفاظ میں بحرِ بیکراں ہوتا ہے اور غلامی میں انسان گھٹ کر ایک جوئے کم آب رہ جاتا ہے مگر سرسید فرما رہے ہیں کہ جس طرح ہماری سلطنت انگریزوں کے تابع ہوگئی اسی طرح ہمیں بھی انگریزوں کے تابع ہوجانا چاہیے۔ لیکن آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے، سیدنا عمرؓ نے ایک موقع پر ایک ذمے دار سے کہا تھا کہ انسانوں کو ان کی ماؤں نے آزاد جنا تھا تم نے کب سے انہیں اپنا غلام بنالیا؟۔ مگر سرسید کہتے ہیں کہ اگر جغرافیہ یا سلطنت تابع ہوگئی تو پھر انسانوں کو بھی تابع فرمان بن جانا چاہیے، یعنی ان کی نظر میں جغرافیہ اور انسان برابر ہیں مگر جغرافیہ شعور نہیں رکھتا انسان شعور رکھتا ہے، انسان غلام بھی ہوجاتا ہے تو آزادی کے خواب دیکھتا ہے مگر سرسید کی دنیا میں کسی انسان یہاں تک کہ مسلمان کو بھی آزادی کا خواب تک دیکھنے کی اجازت نہ تھی۔ حالاں کہ اسلام وہ مذہب ہے جس نے غلاموں تک کے حقوق کا تعین کیا ہے۔ رسول اکرمؐ اور خلفائے راشدین نے غلامی کے ادارے کو تو منہدم نہیں کیا مگر انہوں نے غلاموں کو آزاد کرنے کو ایک فضیلت رکھنے والا کام بنادیا۔ غلامی کا ادارہ اس لیے ختم نہ کیا گیا کہ کچھ غلاموں کی معاشی اور سماجی حالت اتنی خراب تھی کہ سب کو ایک ساتھ آزاد کردیا جاتا تو بے شمار غلام دانے دانے کے محتاج ہوجاتے۔ چناں چہ اس سلسلے میں ’’تدریج‘‘ کو اختیار کیا گیا۔ مگر سرسید پر غلامی کے عشق کا ایسا اثر تھا کہ انہیں مسلمان انگریزوں کے غلام کی حیثیت ہی سے اچھے لگتے تھے۔ مسلمانوں کی آزادی کے خیال ہی سے سرسید کا دم گھٹنے لگتا تھا، یہاں تک کہ مذکورہ بالا اقتباس میں انہوں نے مسلمانوں سے کہا ہے کہ انگریز کہیں جائیں کہیں لڑیں تمہیں اس سے کیا؟ تم اس سلسلے میں انگریزوں سے سوال کرنے کا بھی حق نہیں رکھتے۔ مگر انگریز مختلف محاذوں پر خود تھوڑی لڑ رہے تھے وہ اپنے غلاموں کو اپنی فوج میں بھرتی کرکے انہیں محاذ جنگ پر بھیج رہے تھے۔ چناں چہ مسلمانوں کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ پوچھیں انہیں کہاں لڑنے بھیجا جارہا ہے؟۔ لیکن سرسید غلامی کے مسئلے پر صرف یہی کچھ کہہ کر نہیں رہ گئے۔
ایک اور جگہ سرسید نے فرمایا۔
’’اسلام کا درست اور صحیح مسئلہ یہ ہے کہ جو مسلمان کسی غیر مسلمان بادشاہ کی حکومت میں بطور رعیت کے مستامن ہو کر رہتے ہوں، ان کو مذہب اسلام کی رو سے اجازت نہیں ہے کہ وہ اس بادشاہ کے ساتھ کسی وقت دغابازی کریں یا فساد پھیلائیں۔ دیگر یہ کہ غیر مسلمان اور مسلمان بادشاہ میں جنگ ہونے کی صورت میں اس مسلمان رعایا کو، جو مقدم الذکر بادشاہ کی سلطنت میں مستامن ہے، مذہب کی رو سے اس بات کی قطعی ممانعت ہے کہ وہ مسلمان بادشاہ کا ساتھ دیں یا اس کی کسی طرح سے مدد کریں۔ (ستمبر 1897ء)
انگریزوں کی امان سے علیحدہ ہونا اور غنیم کو مدد دینا کسی حالت میں کسی مسلمان کا مذہبی فرض نہیں ہے، اور اگر وہ ایسا کریں تو گناہ گار خیال کیے جائیں گے کیوں کہ ان کا یہ فعل اس پاک معاہدے کو توڑنا ہوگا جو رعایا اور حکام کے درمیان ہے اور جس کی پابندی مرتے دم تک کرنا مسلمانوں پر فرض ہے‘‘۔
(افکار سرسید۔ ازضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 246)
سرسید نے ان اقتباسات میں ایک بات یہ کہی ہے کہ مسلمان غیر مسلموں کے غلام ہوجائیں تو پھر انہیں حاکموں کا وفادار بن کر رہنا چاہیے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اسلام کو بھی آواز دے ڈالی۔ اصولاً انہیں اس سلسلے میں قرآن کی کوئی آیت یا کوئی حدیث کوٹ کرنی چاہیے تھی۔ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام مسلمانوں کو صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کا غلام بناتا ہے۔ اس کے سوا غلامی کی جتنی صورتیں ہیں اسلام مسلمانوں میں ان کے خلاف مزاحمت کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ ہمیں یاد آیا کہ سرسید نے کسی اور جگہ قرآن مجید کی اسی آیت کو مثال کے طور پر پیش کیا ہے جس میں مسلمانوں کو اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اولیٰ الامر کی اطاعت کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ مگر اولو الامر کے ساتھ منکم بھی کہا گیا ہے یعنی وہ حاکم جو تم میں سے ہوں۔ لیکن مسلمان حاکموں کی اطاعت بھی مطلق نہیں۔ ان کے خلاف خروج کی اجازت دی گئی ہے البتہ خروج کی شرائط سخت ہیں مگر سرسید اس سلسلے میں مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ حاکم کافر ہو یا مشرک بس اس کی اطاعت کرو اور اس کے خلاف کوئی بات ذہن میں نہ لاؤ۔ سرسید نے اس ضمن میں یہ کہہ کر حد ہی کردی کہ اگر مسلمان غیر مسلم حاکموں کے خلاف اٹھیں گے تو وہ اس معاہدے کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں گے جو ان کے اور (انگریز) حاکموں کے درمیان ہوا ہے۔ مگر ایسے معاہدے کا تو کوئی وجود ہی نہ تھا، انگریز تاجر بن کر آئے اور سازشوں کے ذریعے پورے برصغیر پر قابض ہوگئے۔ ان کے ظلم کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے بہادر شاہ سے سلطنت چھینی اور پھر اسی پر غداری کا مقدمہ چلایا، حالاں کہ بہادر شاہ ظفر کا 1852 کی جنگ آزادی سے کوئی تعلق ہی نہ تھا۔ ہوتا تو پورا برصغیر انگریزوں کے ہاتھ سے اسی وقت نکل جاتا، مگر سرسید کسی غیر موجود معاہدے کو بنیاد بنا کر مسلمانوں سے کہہ رہے تھے کہ معاہدے کی پاسداری کرو۔ باالفرض اگر کسی مسلم حکمران نے انگریزوں سے غلامی کا کوئی معاہدہ کر بھی لیا ہوتا تو وہ خلاف اسلام ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے واجب التعمیل نہ ہوتا۔ سیدنا عمرؓ نے مہر کی حد مقرر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو ایک عام مسلمان عورت نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا اور دلیل یہ دی کہ قرآن مہر کی رقم کی حد مقرر کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
سرسید مغرب کی جدیدیت کے عاشق تھے اور انہوں نے اسی کالم میں پیش کی گئی اپنی ایک تحریر میں مسلمانوں سے صاف کہا ہے کہ تم اپنے حاکموں سے سوال کرنے اور ان کی حکم عدولی کا حق نہیں رکھتے۔ مگر سرسید مسلمان خواتین کے جدید تعلیم حاصل کرنے کے سخت خلاف تھے۔ انہوں نے اس سلسلے میں صاف کہا ہے کہ مسلمان عورتیں جدید علوم سے دور رہیں اور قرآن و حدیث کی تعلیم تک خود کو محدود رکھیں اور امور خانہ داری میں مہارت کے سوا ان سے کسی مہارت کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں صاحب؟ جدیدیت تو لڑکیوں کو لڑکوں کے مساوی سمجھتی ہے اور وہ تعلیم کے سلسلے میں لڑکوں اور لڑکیوں میں کوئی فرق نہیں کرتی تو سرسید کو جدیدیت میں ترمیم کا حق کہاں سے حاصل ہوا؟ سرسید تو ویسے بھی غلاموں کی آزاد خیالی کے سخت خلاف تھے، اتفاق سے سرسید صرف عورتوں کی تعلیم ہی کے نہیں جمہوریت کے بھی سخت خلاف تھے۔ حالاں کہ جمہوریت، جدیدیت کا ایک اہم ستون ہے۔ لیکن سرسید نے جمہوریت کے بارے میں کہا کیا ہے؟ سرسید نے لکھا ہے۔
’’میں اس خیال کو وہم سے کم نہیں سمجھتا کہ جمہوری طریقہ کل اقوام اور مذاہب اور ممالک اور ازمنہ کے لیے یکساں موزوں ہے۔ میری رائے میں یہ طریقہ عقلاً بھی نامکمل ہے۔ حقیقی امر یہ ہے کہ مسٹر کارلائل مرحوم نے، جن سے مجھے ذاتی واقفیت رکھنے کی عزت حاصل تھی، کہیں کہا ہے کہ کثرت انسان عقل مندی سے بہت دور ہیں۔ یہ خیال فیاض نہ ہو مگر بدقسمتی سے ٹھیک ہے‘‘۔
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں۔
’’فرض کیجیے کہ وائسرائے کی کونسل اس باقاعدہ سے ہو جس کی خواہش ہے یعنی اس میں رعایا کے انتخاب سے ممبر مقرر ہوں اور انتخاب کی صورت یوں فرض کیجیے کہ تمام مسلمان ایک مسلمان ممبر ہونے کے لیے ووٹ دیں اور ایک ہندو کے لیے کل ہندو ووٹ دیں اور گنیے کہ مسلمان کے کتنے ووٹ ہوئے اور ہندو ممبر کے کتنے؟ یقینی ہندو ممبر کے چوگنے ووٹ ہوں گے کیوں کہ وہ آبادی میں مسلمانوں سے چوگنے ہیں۔ پس میتھیمیٹکس (Mathematics) کے ثبوت سے ایک ووٹ مسلمان ممبر کے لیے ہوگا اور چار ووٹ ہندو ممبر کے لیے۔ پس مسلمانوں کا ٹھکانا ہندوؤں کے مقابل کہاں رہے گا؟ اور جوئے کے اصول کے مطابق چار پانسے ہندوؤں کے لیے اور ایک پانسہ ہمارے لیے ہوگا‘‘۔
ان اقتباسات کے تناظر میں دیکھا جائے تو سرسید کو جمہوریت پر دو بڑے اعتراضات ہیں۔ ایک یہ کہ جمہوریت بندوں کو گنتی ہے تولتی نہیں ہے۔ اتفاق سے سرسید کارلائل کے اس خیال سے بھی متفق تھے کہ انسانوں کی اکثریت ’’عقل مند‘‘ یا ’’صاحب علم‘‘ نہیں ہوتی، چناں چہ وہ اکثر انسان غلط لوگوں کو اپنا نمائندہ منتخب کرلیتے ہیں۔ جمہوریت پر یہ اعتراضات بالکل درست ہیں مگر سرسید کو ایک غلام کی حیثیت سے جمہوریت پر اعتراض کا حق کہاں سے حاصل ہوا؟ اور اگر سرسید کو انگریزوں کی ایک چیز پر اعتراض کا حق حاصل تھا تو دوسرے مسلمانوں کو انگریزوں کی دس دوسری چیزوں پر اعتراض کا حق کیوں حاصل نہیں تھا؟۔
سرسید کو جمہوریت سے یہ خطرہ بھی لاحق تھا کہ اگر اکثریت کے اصول کو مان لیا جائے تو ہندوستان میں ہندوؤں کے چار ووٹ ہوں گے اور مسلمان کا ایک۔ اس طرح جمہوریت کی رو سے مسلمان ہندوؤں کے غلام بن جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ جب عقلاً انگریزوں کی غلامی درست تھی تو ہندو اکثریت کی غلامی کیوں غلط تھی؟ غلامی تو غلامی ہے انگریزوں کی ہو یا ہندوؤں کی۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ سرسید انگریزوں کی غلامی کے تو عاشق تھے مگر وہ ہندوؤں کی غلامی پر آمادہ نہیں ہوسکتے تھے، اس لیے کہ مسلمانوں نے برصغیر پر ایک ہزار سال حکومت کی تھی۔ اب یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ سابق آقا غلام اور سابق غلام آقا بن جائیں۔ چناں چہ سرسید نے نہ نومن تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی کے اصول کے تحت جمہوریت ہی کی گردن مار دی۔ لیکن جب مسلمان مذہب، علم، عقل اور فائدے اور نقصان کی بنیاد پر مغرب کے وحی بیزار علوم کا انکار کرتے تھے تو سرسید اس کا بہت بُرا مانتے تھے اور کہتے تھے کہ پھر مسلمان زمانے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر کیسے چلیں گے؟ سرسید کو معلوم نہیں تھا کہ بہت جلد ایسا زمانہ آنے والا ہے جب جمہوریت مذہب کی طرح مقدس سمجھی جائے گی اور اس کے خلاف بات کرنا عقل اور علم کے خلاف سمجھا جائے گا اور مغرب جمہوریت کی مدلل تردید کو بھی کفر بنا کر رکھ دے گا اور کہے گا جو جمہوریت سے ہم آہنگ نہیں وہ زمانے سے ہم آہنگ نہیں۔